بیمتارا: ریاست چھتیس گڑھ کے بیمتارا ضلع کے ساجا اسمبلی حلقہ کے بیران پور گاؤں میں ہفتہ کو کھیل کے دوران بچوں کی لڑائی سے شروع ہونے والے جھگڑے نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا۔ فریقین کے درمیان جھگڑے میں 23 سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا ہے۔ نوجوان کی موت کے بعد معاملہ مزید گرم ہو گیا۔ واقعے کے بعد موقع پر پہنچی پولیس پر لوگوں نے پتھراؤ کیا۔ اس پتھراؤ میں ساجا تھانے کے پولس انسپکٹر بی آر ٹھاکر شدید زخمی ہوگئے جبکہ مزید دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ گاؤں میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔
رات گئے پولیس نے واقعے سے متعلق 11 ملزمان کو گرفتار کرلیا، جن کا تعلق ایک مخصوص برادری سے ہے۔ گاؤں میں دو ہزار پولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔ بیمتارا کے علاوہ کاوردھا، بلاس پور، راج ناندگاؤں اور درگ اضلاع کی پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر بیریگیڈ لگا دیئے گئے ہیں۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے درگ رینج کے آئی جی آنند چھابڑا ساجا پولیس اسٹیشن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
اس واقعہ کے بعد بی جے پی نے انتخابی روٹیاں سیکنا شروع کر دی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ رمن سنگھ ، بی جے پی رہنما دھرم لال کوشک، ایم پی وجے بگھیل آج بیرن پور گاؤں پہنچ سکتے ہیں۔ بجرنگ دل نے 10 اپریل کو چھتیس گڑھ بند کی کال دی ہے۔بیران پور گاؤں میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد بی جے پی نے بھوپیش سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے اس واقعہ کو دل دہلا دینے والا بتایا ہے۔ چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی نائب صدر رمن سنگھ نے کہا کہ چھتیس گڑھ میں اس طرح کا تشدد ہونا بڑی بات ہے۔ ایک مخصوص برادری کے لوگوں نے نوجوان پر تشدد کیا اور اسے چاقو سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ واقعہ سے سنسنی پھیل گئی۔
مزید پڑھیں:۔ Palamu Violence پالامو میں انٹرنیٹ پر عائد پابندی میں توسیع، علاقے میں دفعہ 144 نافذ
اپوزیشن کے سابق رہنما دھرم لال کوشک نے کہا کہ کاوردھا کی آگ بھی ابھی تک نہیں بجھی ہے اور بیمتارا میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ بیمتارا کے واقعہ کی وجہ سے پورے چھتیس گڑھ میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ یہ صرف ایک دن کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ وار چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے مندر کی بے حرمتی کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دوران جھگڑا بھی ہوا تھا۔ اس سے قبل دو فریقوں کے درمیان لڑکا اور لڑکی کی شادی کی وجہ سے ہنگامہ آرائی کا ماحول تھا۔ شکایت کرنے بھی گئے تھے لیکن حکومت نے اس کو نظر انداز کیا اور کارروائی نہیں کی، جس کا خمیازہ نوجوان اور اس کے اہل خانہ کو بھگتنا پڑا۔ علاقے میں فریقین کے درمیان اس کشیدگی کا حکومت کو بھی علم تھا، ان کے وزیر بھی وہاں گئے تھے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اگر کارروائی پہلے کی جاتی تو تشدد نہ ہوتا۔