ETV Bharat / bharat

نتیش کو سخت چیلنجز درپیش، بہار کی تصویر بدلنی ہوگی

بہار کے مستقبل کے حوالے سے سیاسی اسکرپٹ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں عوام کی طرف سے ایک بڑی حد تک لکھی جا چکی ہے۔ اگر نتیش عوام کے مطابق چلتے ہیں تو وہ بہار کی تاریخ میں اعلی رہنما بن جائیں گے، بصورت دیگر وہ کسی گمنامی کا شکار ہو جائیں گے۔ پوری رپورٹ پڑھیں۔

نتیش کو سخت چیلنجز بہار کی تصویر بدلنی ہوگی
نتیش کو سخت چیلنجز بہار کی تصویر بدلنی ہوگی
author img

By

Published : Nov 16, 2020, 8:21 AM IST

بہار میں اسمبلی انتخابات ختم ہوگئے ہیں، نتیش کمار ساتویں بار وزیر اعلی بننے کے لیے تیار ہیں، قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے نقطۂ نظر سے نتائج ان کے حق میں آئے ہیں اور عوام نے انہیں خوش ہونے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ تاہم نتائج نتیش کمار کے لیے تسلی بخش کہے جا سکتے ہیں، اس بار ان کی پارٹی جے ڈی یو کو 2015 جیسی کامیابی نہیں مل سکی ہے، 2015 کی 71 نشستوں کے مقابلے میں اس بار جے ڈی یو کو صرف 43 نشستیں ملی ہیں، بہار اسمبلی میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے 243 میں سے 125 نشستیں حاصل کیں۔ حزب اختلاف کے عظیم اتحاد نے 110 نشستیں حاصل کیں، ظاہر ہے اس بار حزب اختلاف اور اس کی اتحادی مضبوط ہیں اور نتیش کمزور ہیں۔

اس بار آر جے ڈی 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، حزب اختلاف کی اتحادی جماعتوں کی بات کی جائے تو آر جے ڈی نے 75، کانگریس کو 19، سی پی آئی مالے نے 12 اور سی پی آئی اور سی پی آئی-ایم نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اسمبلی میں عظیم اتحاد کی نشستوں کی تعداد 110 ہے جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 122 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے، ظاہر ہے اپوزیشن صرف 12 نمبروں کے ساتھ حکومت بنانے سے محروم رہی، تیجسوی نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ حکومت بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے، بتایا جارہا ہے کہ نائب وزیر اعلی کی کرسی کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔

عظیم اتحاد کی ایک اہم حلیف پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے اس کے لیے اپنے کچھ نامور سپہ سالاروں کو شامل کیا ہے، ان کی اس کاوشوں کا انکشاف حال ہی میں ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے صدر جیتن رام مانجھی نے کیا ہے، آر جے ڈی کے رکن پارلیمان منوج جھا کا کہنا ہے کہ اکثریت نتیش کمار کے خلاف ہے اور ہم اس کا متبادل تلاش کریں گے، اس سے قبل آر جے ڈی قانون ساز پارٹی کے اجلاس میں تیجسوی یادو نے یہ بھی کہا تھا کہ این ڈی اے کی حکومت زیادہ دیر پا قائم نہیں رہے گی، کہا جاتا ہے کہ آر جے ڈی کی جانب سے باہوبلی اننت سنگھ اور ریتلال یادو کو عظیم اتحاد کی حکومت قائم کرنے کے لیے کوششیں کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ قانون ساز کونسلر سنیل سنگھ اور راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان امریندر دھری سنگھ بھی اس کام میں مصروف ہیں، یہ واضح ہے کہ تیجسوی نتیش کمار کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

بی جے پی اس بار 74 نشستوں کے ساتھ بہار کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے، ظاہر ہے نتیش کا اب بی جے پی پر دبدبہ قائم نہیں رہ پائے گا، بی جے پی اب حکومت کے کام میں زیادہ مداخلت کرے گی اور اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی، دراصل بی جے پی اس حکومت میں کھل کر کھیلے گی اور 2025 کی تیاری کرے گی، وزیر اعلی کے طور پر نتیش کمار کے پسندیدہ سشیل مودی کو نائب وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانا اس کا واضح اشارہ ہے، تاہم بی جے پی نتیش پر اتنا دباؤ نہیں ڈالے گی کہ انہیں ایک سخت فیصلہ کرنا پڑے، لیکن یہ اتنا یقینی ہے کہ بی جے پی اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی اور نتیش روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ تاہم نتیش کمار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ حکمران اتحاد کے شراکت دار ہندوستانی عوامی مورچہ (ہم) اور وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) ہوں گے۔ دونوں نے چار-چار نشستیں حاصل کی ہیں، انتخابات سے قبل دونوں جماعتیں عظیم اتحاد کا حصہ تھیں، اس کا چہرہ تبدیل کرنا اس کے لئے بہت آسان ہوگا، ان دونوں جماعتوں کے لیے پلٹنا بہت ہی آسان ہے، اگر انہیں محسوس ہوا کہ حزب اختلاف کی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے اور وہاں انہیں زیادہ منصب حاصل ہو سکتا ہے تو یہ دونوں جماعتیں بلا تاخیر این ڈی اے سے دغا کر سکتی ہے۔

بھاپکا مالے نے 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد میں سی پی آئی ایم ایل کی آمد نتیش کمار کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، مالے کو ایک بنیاد پرست تنظیم سمجھا جاتا ہے، مانا جاتا ہے کہ ماؤنوازوں کے ساتھ ان کی ہمدردی رہتی ہے، ایسی صورتحال میں امن و امان کے لیے چیلنج کافی سنگین ہے، بہار میں نکسلزم کی جڑیں گہری ہیں، اگر یہ ابھرے تو بہار کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

نتیش کمار نے بہار میں کئی ایسے کام کیے ہیں جنہیں مخالفین بھی سراہتے ہیں، لیکن اب عوام چاہتی ہے کہ ملازمت کے لیے انہیں ریاست سے باہر نقل مکانی نہیں کرنا پڑے، لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ اگر بہار سمندری کنارے پر نہیں ہے تو یہاں صنعتیں نہیں آسکتی ہیں، بہار کے عوام اسے بہانہ سمجھتے ہیں۔ نتیش کی پارٹی کی نشستیں کم ہونے اور تیجسوی کے ابھرنے کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی تھی، اگر نتیش اس بار انڈسٹری لانے میں ناکام رہے تو شاید ہی اگلی بار بہار کی عوام انہیں موقع فراہم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مجلس اتحادالمسلمین ٹی ایم سی سے اتحاد کے لیے تیار

نتیش کمار ساتویں بار وزیر اعلی بننے جا رہے ہیں، ایسی صورتحال میں ان چیلنجز پر قابو پانا ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یہ جانتے ہوئے کہ لوگ نتیش کمار سے زیادہ خوش نہیں ہیں، بار بار انتخابی اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ اگر بی جے پی کو زیادہ نشستیں آتی بھی ہیں تو نتیش کمار ہی وزیر اعلی ہوں گے، ظاہر ہے اس بار لڑائی وزیر اعلی نتیش کمار بمقابلہ وزیر اعلی نتیش کمار ہی ہوں گی، نتیش کمار نے بہار کی تھوڑی تصویر بدلی ہے، شاید اسی لیے لوگوں نے ناراضگی کے باوجود انہیں مکمل طور پر مسترد نہیں کیا۔ اب نتیش کمار کو بہار کی ترقی کر کے عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ اگر نتیش اگلے انتخابات میں بہار کو ترقی یافتہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ بہار کی تاریخ میں عظیم رہنما بن جائیں گے بصورت دیگر وہ ایک گمنام رہنما بن جائیں گے۔

بہار میں اسمبلی انتخابات ختم ہوگئے ہیں، نتیش کمار ساتویں بار وزیر اعلی بننے کے لیے تیار ہیں، قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے نقطۂ نظر سے نتائج ان کے حق میں آئے ہیں اور عوام نے انہیں خوش ہونے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ تاہم نتائج نتیش کمار کے لیے تسلی بخش کہے جا سکتے ہیں، اس بار ان کی پارٹی جے ڈی یو کو 2015 جیسی کامیابی نہیں مل سکی ہے، 2015 کی 71 نشستوں کے مقابلے میں اس بار جے ڈی یو کو صرف 43 نشستیں ملی ہیں، بہار اسمبلی میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے 243 میں سے 125 نشستیں حاصل کیں۔ حزب اختلاف کے عظیم اتحاد نے 110 نشستیں حاصل کیں، ظاہر ہے اس بار حزب اختلاف اور اس کی اتحادی مضبوط ہیں اور نتیش کمزور ہیں۔

اس بار آر جے ڈی 75 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، حزب اختلاف کی اتحادی جماعتوں کی بات کی جائے تو آر جے ڈی نے 75، کانگریس کو 19، سی پی آئی مالے نے 12 اور سی پی آئی اور سی پی آئی-ایم نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اسمبلی میں عظیم اتحاد کی نشستوں کی تعداد 110 ہے جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 122 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے، ظاہر ہے اپوزیشن صرف 12 نمبروں کے ساتھ حکومت بنانے سے محروم رہی، تیجسوی نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ حکومت بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے، بتایا جارہا ہے کہ نائب وزیر اعلی کی کرسی کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔

عظیم اتحاد کی ایک اہم حلیف پارٹی راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے اس کے لیے اپنے کچھ نامور سپہ سالاروں کو شامل کیا ہے، ان کی اس کاوشوں کا انکشاف حال ہی میں ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے صدر جیتن رام مانجھی نے کیا ہے، آر جے ڈی کے رکن پارلیمان منوج جھا کا کہنا ہے کہ اکثریت نتیش کمار کے خلاف ہے اور ہم اس کا متبادل تلاش کریں گے، اس سے قبل آر جے ڈی قانون ساز پارٹی کے اجلاس میں تیجسوی یادو نے یہ بھی کہا تھا کہ این ڈی اے کی حکومت زیادہ دیر پا قائم نہیں رہے گی، کہا جاتا ہے کہ آر جے ڈی کی جانب سے باہوبلی اننت سنگھ اور ریتلال یادو کو عظیم اتحاد کی حکومت قائم کرنے کے لیے کوششیں کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ قانون ساز کونسلر سنیل سنگھ اور راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان امریندر دھری سنگھ بھی اس کام میں مصروف ہیں، یہ واضح ہے کہ تیجسوی نتیش کمار کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

بی جے پی اس بار 74 نشستوں کے ساتھ بہار کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے، ظاہر ہے نتیش کا اب بی جے پی پر دبدبہ قائم نہیں رہ پائے گا، بی جے پی اب حکومت کے کام میں زیادہ مداخلت کرے گی اور اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی، دراصل بی جے پی اس حکومت میں کھل کر کھیلے گی اور 2025 کی تیاری کرے گی، وزیر اعلی کے طور پر نتیش کمار کے پسندیدہ سشیل مودی کو نائب وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانا اس کا واضح اشارہ ہے، تاہم بی جے پی نتیش پر اتنا دباؤ نہیں ڈالے گی کہ انہیں ایک سخت فیصلہ کرنا پڑے، لیکن یہ اتنا یقینی ہے کہ بی جے پی اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی اور نتیش روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ تاہم نتیش کمار کے لیے سب سے بڑا مسئلہ حکمران اتحاد کے شراکت دار ہندوستانی عوامی مورچہ (ہم) اور وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) ہوں گے۔ دونوں نے چار-چار نشستیں حاصل کی ہیں، انتخابات سے قبل دونوں جماعتیں عظیم اتحاد کا حصہ تھیں، اس کا چہرہ تبدیل کرنا اس کے لئے بہت آسان ہوگا، ان دونوں جماعتوں کے لیے پلٹنا بہت ہی آسان ہے، اگر انہیں محسوس ہوا کہ حزب اختلاف کی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے اور وہاں انہیں زیادہ منصب حاصل ہو سکتا ہے تو یہ دونوں جماعتیں بلا تاخیر این ڈی اے سے دغا کر سکتی ہے۔

بھاپکا مالے نے 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد میں سی پی آئی ایم ایل کی آمد نتیش کمار کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، مالے کو ایک بنیاد پرست تنظیم سمجھا جاتا ہے، مانا جاتا ہے کہ ماؤنوازوں کے ساتھ ان کی ہمدردی رہتی ہے، ایسی صورتحال میں امن و امان کے لیے چیلنج کافی سنگین ہے، بہار میں نکسلزم کی جڑیں گہری ہیں، اگر یہ ابھرے تو بہار کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

نتیش کمار نے بہار میں کئی ایسے کام کیے ہیں جنہیں مخالفین بھی سراہتے ہیں، لیکن اب عوام چاہتی ہے کہ ملازمت کے لیے انہیں ریاست سے باہر نقل مکانی نہیں کرنا پڑے، لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ اگر بہار سمندری کنارے پر نہیں ہے تو یہاں صنعتیں نہیں آسکتی ہیں، بہار کے عوام اسے بہانہ سمجھتے ہیں۔ نتیش کی پارٹی کی نشستیں کم ہونے اور تیجسوی کے ابھرنے کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی تھی، اگر نتیش اس بار انڈسٹری لانے میں ناکام رہے تو شاید ہی اگلی بار بہار کی عوام انہیں موقع فراہم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مجلس اتحادالمسلمین ٹی ایم سی سے اتحاد کے لیے تیار

نتیش کمار ساتویں بار وزیر اعلی بننے جا رہے ہیں، ایسی صورتحال میں ان چیلنجز پر قابو پانا ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یہ جانتے ہوئے کہ لوگ نتیش کمار سے زیادہ خوش نہیں ہیں، بار بار انتخابی اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ اگر بی جے پی کو زیادہ نشستیں آتی بھی ہیں تو نتیش کمار ہی وزیر اعلی ہوں گے، ظاہر ہے اس بار لڑائی وزیر اعلی نتیش کمار بمقابلہ وزیر اعلی نتیش کمار ہی ہوں گی، نتیش کمار نے بہار کی تھوڑی تصویر بدلی ہے، شاید اسی لیے لوگوں نے ناراضگی کے باوجود انہیں مکمل طور پر مسترد نہیں کیا۔ اب نتیش کمار کو بہار کی ترقی کر کے عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ اگر نتیش اگلے انتخابات میں بہار کو ترقی یافتہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ بہار کی تاریخ میں عظیم رہنما بن جائیں گے بصورت دیگر وہ ایک گمنام رہنما بن جائیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.