ETV Bharat / bharat

مرکزی حکومت کو فاقہ کشی کی اموات روکنا چاہیے

author img

By

Published : May 18, 2021, 10:59 AM IST

وزیر اعظم مودی نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں کووِڈ وبا کی دوسری لہر کے دوران دونوں چیزوں یعنی انسانی زندگیوں کو بھی اور روزگار کو بھی تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ سرکردہ ماہر معاشیات جین ڈریز نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ملک گیر لاک ڈاؤن کے بجائے ریاستوں کی سطح پر ہی لاک ڈاؤن کئے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود پورا ملک بے روزگاری کے بحران کی لپیٹ میں آنے والا ہے۔

مرکزی حکومت کو فاقہ کشی کی اموات روکنا چاہیے
مرکزی حکومت کو فاقہ کشی کی اموات روکنا چاہیے

کروڑوں لوگوں کے روزگار کا انحصار روزمرہ کے کام کاج پر ہے۔ غیر منظم سیکٹر سے وابستہ 45 کروڑ مزدور بدترین غریبی کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد کووِڈ سے مرنے والوں سے زیادہ ہونے والی ہیں۔ مرکزی سرکار کے جس اقدام کو بھکمری کا تدارک سمجھا جارہا ہے، وہ، اس کا یہ اعلان ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو مئی اور جون کے مہینوں میں فی کس 5 کلو اناج فراہم کیا جائے گا۔

تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک میں 10 کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو عوامی تقسیم کاری کے ناکارہ نظام کے تحت اناج حاصل کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ اُن کے نام مردم شماری فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے فنگر پرنٹس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھس گئے ہیں۔ یہ لوگ بھی عوامی تقسیم کاری نظام کے ذریعے مراعاتی اناج حاصل کرنے سے قاصر ہونگے کیونکہ بائیو میٹر مشینیں ان کے فنگر پرنٹس کی شناخت نہیں کرپائیں گی۔

اگرچہ مرکز اس کے علاوہ غریبوں کو اضافی اناج فراہم کرنے کا وعدہ بھی کررہا ہے، لیکن وہ مائیگرنٹ مزدوروں کو اس طرح کی کوئی رعایت دینے سے انکار کررہا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی سرکار کا استدلال ہے کہ چونکہ ملک گیر لاک ڈاؤن لاگو نہیں ہے، اس لئے مزدور اپنے آبائی دیہات واپس لوٹ کر اپنے راشن کارڈوں پر اناج حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ بات خوفناک ہے کہ حکومتیں مائیگرنٹ مزدوروں، جو ملک کے جی ڈی پی میں دس فیصد کنٹری بیوٹ ( شراکت ) کرتے ہیں، کے حوالے سے لاپرواہ ہیں۔ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جو مزدور اپنے گھروں کو چلے گئے تھے، اُن میں سے 39 فیصد کو دوبارہ اپنی نوکریاں واپس نہیں مل پائی تھیں۔ لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے اُن کی آمدنی میں 86 فیصد کی گراوٹ آگئی۔ مائیگرنٹ مزدوروں کو آج بھی اُن ہی مسائل کا سامنا ہے، جن سے اُنہیں گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ حکومت مائیگرنٹ مزدوروں کو اُن مشکلات سے نجات دلانے کے لئے کوئی احتیاطی اقدامات کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔

مرکزی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ملک میں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ورلڈ ہنگر انڈیکس میں بھارت 107 ملکوں کی فہرست میں 94 ویں نمبر پر ہے۔ چونکہ کووِڈ نے روزگار کے مواقع ختم کردیئے ہیں، مائیگرنٹ مزدوروں کے زندہ رہنے کے حق کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ حکم میں مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ دلی، ہریانہ اور اُتر پردیش حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ مائیگرنٹ مزدوروں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں اشیاء ضروریہ بھی فراہم کریں۔ عدالت نے مائیگرنٹ مزدوروں کو اُن کے گھروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں موجود مزدوروں کو بھی اسی طرح کی سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔

جو کنبے روزگار ختم ہوجانے کی وجہ سے شدید غربت کا شکار ہوگئے ہیں، وہ فاقہ کشی سے بھی دوچار ہیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق وبا نے جو کہرام مچادیا ہے، اس کے نتیجے میں 23 کروڑ بھارتی شہریوں کو روزانہ کم از کم اُجرت یعنی 375 روپے سے بھی کم اجرت مل پارہی ہے۔ اب کروڑوں لوگوں کو نہ خوراک اور نہ روزگار میسر ہے۔

رائٹ ٹو فوڈ کمپیئن کے ایک سروے کے مطابق 27 فیصد بھارتی شہریوں کو گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران بار بار فاقوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس طرح کا انسانی المیہ دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملنا چاہیے۔ ملک میں سرکاری گوداموں میں اتنا اناج موجود ہے، جو اس سے تین گُنا زیادہ ہے جو ایمرجنسی میں ضرورت پڑنے پر کام آسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اُن تمام لوگوں کو مفت اناج فراہم کیا جانا چاہیے، جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ خواہ یہ ضرورتمند غریب طبقے سے وابستہ ہوں یا پھر اُن کا تعلق اوسط درجے سے ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت کو کووِڈ کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں اور فاقہ کشی سے ہونے والی اموات کا تدارک کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر متحرک ہوجانا چاہیے۔

کروڑوں لوگوں کے روزگار کا انحصار روزمرہ کے کام کاج پر ہے۔ غیر منظم سیکٹر سے وابستہ 45 کروڑ مزدور بدترین غریبی کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد کووِڈ سے مرنے والوں سے زیادہ ہونے والی ہیں۔ مرکزی سرکار کے جس اقدام کو بھکمری کا تدارک سمجھا جارہا ہے، وہ، اس کا یہ اعلان ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو مئی اور جون کے مہینوں میں فی کس 5 کلو اناج فراہم کیا جائے گا۔

تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک میں 10 کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو عوامی تقسیم کاری کے ناکارہ نظام کے تحت اناج حاصل کرنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ اُن کے نام مردم شماری فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے فنگر پرنٹس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھس گئے ہیں۔ یہ لوگ بھی عوامی تقسیم کاری نظام کے ذریعے مراعاتی اناج حاصل کرنے سے قاصر ہونگے کیونکہ بائیو میٹر مشینیں ان کے فنگر پرنٹس کی شناخت نہیں کرپائیں گی۔

اگرچہ مرکز اس کے علاوہ غریبوں کو اضافی اناج فراہم کرنے کا وعدہ بھی کررہا ہے، لیکن وہ مائیگرنٹ مزدوروں کو اس طرح کی کوئی رعایت دینے سے انکار کررہا ہے۔ اس ضمن میں مرکزی سرکار کا استدلال ہے کہ چونکہ ملک گیر لاک ڈاؤن لاگو نہیں ہے، اس لئے مزدور اپنے آبائی دیہات واپس لوٹ کر اپنے راشن کارڈوں پر اناج حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ بات خوفناک ہے کہ حکومتیں مائیگرنٹ مزدوروں، جو ملک کے جی ڈی پی میں دس فیصد کنٹری بیوٹ ( شراکت ) کرتے ہیں، کے حوالے سے لاپرواہ ہیں۔ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جو مزدور اپنے گھروں کو چلے گئے تھے، اُن میں سے 39 فیصد کو دوبارہ اپنی نوکریاں واپس نہیں مل پائی تھیں۔ لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے اُن کی آمدنی میں 86 فیصد کی گراوٹ آگئی۔ مائیگرنٹ مزدوروں کو آج بھی اُن ہی مسائل کا سامنا ہے، جن سے اُنہیں گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ حکومت مائیگرنٹ مزدوروں کو اُن مشکلات سے نجات دلانے کے لئے کوئی احتیاطی اقدامات کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔

مرکزی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ملک میں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ورلڈ ہنگر انڈیکس میں بھارت 107 ملکوں کی فہرست میں 94 ویں نمبر پر ہے۔ چونکہ کووِڈ نے روزگار کے مواقع ختم کردیئے ہیں، مائیگرنٹ مزدوروں کے زندہ رہنے کے حق کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ حکم میں مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ دلی، ہریانہ اور اُتر پردیش حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ مائیگرنٹ مزدوروں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں اشیاء ضروریہ بھی فراہم کریں۔ عدالت نے مائیگرنٹ مزدوروں کو اُن کے گھروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں موجود مزدوروں کو بھی اسی طرح کی سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔

جو کنبے روزگار ختم ہوجانے کی وجہ سے شدید غربت کا شکار ہوگئے ہیں، وہ فاقہ کشی سے بھی دوچار ہیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق وبا نے جو کہرام مچادیا ہے، اس کے نتیجے میں 23 کروڑ بھارتی شہریوں کو روزانہ کم از کم اُجرت یعنی 375 روپے سے بھی کم اجرت مل پارہی ہے۔ اب کروڑوں لوگوں کو نہ خوراک اور نہ روزگار میسر ہے۔

رائٹ ٹو فوڈ کمپیئن کے ایک سروے کے مطابق 27 فیصد بھارتی شہریوں کو گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران بار بار فاقوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس طرح کا انسانی المیہ دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملنا چاہیے۔ ملک میں سرکاری گوداموں میں اتنا اناج موجود ہے، جو اس سے تین گُنا زیادہ ہے جو ایمرجنسی میں ضرورت پڑنے پر کام آسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اُن تمام لوگوں کو مفت اناج فراہم کیا جانا چاہیے، جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ خواہ یہ ضرورتمند غریب طبقے سے وابستہ ہوں یا پھر اُن کا تعلق اوسط درجے سے ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت کو کووِڈ کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں اور فاقہ کشی سے ہونے والی اموات کا تدارک کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر متحرک ہوجانا چاہیے۔

For All Latest Updates

TAGGED:

News
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.