گنجان آبادی والی بستیاں، تنگ گلیاں، مخدوش عمارتیں، چھوٹی چھوٹی کھولیاں، بنیادی ضرورتوں سے محروم عوام، یہ شناخت ہے ممبئی کے مسلم علاقوں کی۔ جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے Muslim-majority areas of South Mumbai اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ان علاقوں میں اب عوام بیدار ہوچکی ہے، اس لئے بنیادی حقوق کے لئے حکومت اور بی ایم سی کے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں کوشش میں سے ایک کوشش ہے علاقائی کتب خانوں کے وجود کو دوبارہ برقرار رکھنے کی۔
ایک دور تھا جب ہر گلی، کوچے، نکڑ پر کتب خانے ہوا کرتے تھے۔ نوجوان نسل اور طلبہ ان کتب خانوں میں مطالعہ کرنے، ریسرچ کرنے اور دوسری ایسی کتابوں کی کھوج کے لئے پہنچتے تھے جو شاید کہیں اور نہیں ملتی تھی۔
زمانہ ڈیجیٹل ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ یہ ساری سہولتیں نہ صرف ان کی پہنچ سے باہر ہوئیں بلکہ انکا وجود ختم ہو گیا۔ کئی پرانے کتب خانوں پر یا تو لوگ غیر قانونی طریقے سے قابض ہو گئے یا تو وہ کتب کھانے بند ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
پٹنہ:خدا بخش لائبریری میں مولانا آزاد کی حیات و خدمات پر کتابوں کی نمائش
اس علاقے کے کارپوریٹر رئیس شیخ نے تعلیمی ماحول کو پھر سے زندہ کرنے اور نوجوان نسل کو ان کتب خانوں کی جانب راغب Attract the Younger Generation to Libraries کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے اب پرانے اور قفل لگے کتب خانوں کو از سر نو تعمیر کیا جا رہا ہے۔ رئیس شیخ کہتے ہیں کہ ہمیں اگر تعلیم سے آرستہ ہونا ہے تو قفل لگے کتب خانوں کے وجود کو زندہ کرنا ہوگا تاکہ عوام اور طلبہ اس سے فیض اٹھا سکیں۔
ممبئی کا مدنپورہ علاقہ جو اپنی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لئے جانا جاتا تھا۔ ایک وہ دور تھا جب ان علاقوں میں ادبی تحریک ترقی پسند تحریک اور تحریک آزادی کے متوالوں کی مثالیں دی جاتی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور زمانہ ڈیجیٹل ہوا تو یہاں کے کتب خانوں میں قفل لگ گئے۔ شیخ کہتے ہیں کہ بلدیاتی اور سیاسی رہنماؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ علاقے کی عوام کو انکے بنیادی حقوق سے روشناس کرایا جائے تاکہ ان حقوق کے تحت ہی اس طرح کے کتاب خانوں کو عوام کے لئے پھر سے کھولا جائے، جو برسوں سے بند ہیں۔