دنیا بھر میں کچھ ایسے تاریخی مقامات ہیں جو اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں، حیدرآباد کا چارمینار بھی ان تاریخی مقامات میں شامل ہے جو اپنے آپ میں بالکل انوکھا ہے، چار مینارسڑک کے درمیان واقع ہے، لوگ اس کے اطراف سے گزرتے ہیں،جہاں اس عمارت سے حیدرآبادت کو ایک شناخت حاصل ہے وہیں اس کے توسط سے بیشتر افراد ذریعہ معاش سے فیض حاصل کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکام نے اس کی خوبصورتی اور راہگیروں کی آسانی کے لیے متعدد پروجیکٹز کو شروع کیا۔
چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ
چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ کا تصور 1999 میں پیش کیا گیا تھا تاہم 2018 میں اس میں تیزی پیدا کی گئی جب گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن اور حکومت تلنگانہ نے فرش کو ہموار کرنے، ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کام شروع کیا۔
اس کے ذریعہ پُرہجوم چارمینار کے علاقہ کو کافی راحت مل سکتی ہے اور عوام یادگاروں اور شہریوں کوتازہ ہوا، تاہم زمینی طورپر یہ پالیسی کیا کارآمد ہوئی؟ معماروں اور منصوبہ سازوں کی ٹیم نے اس سے متعلق سوال پوچھے۔ اب تک چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ کے کاموں کا کیا اثر ہوا؟ عوام کیا محسوس کرتی ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور کس چیز کی ضرورت ہے؟ مصنف و کنزرویشن آرکیٹکٹ و اربن پلانر کلپنا راگھویندرا کی زیرقیادت ٹیم کی جانب سے کئے گئے سروے کے نتائج حال ہی میں جاری کیے گئے۔
مارچ 2019 میں مختصر سروے کیا گیا جس کا مقصد اس علاقہ کی منصوبہ بندی اور ترقی کے لئے عوامی رائے حاصل کرنا تھا۔ اس سروے میں 218 افراد کا احاطہ کیاگیا جن میں سیاح، دکاندار، یہاں آنے والے، رہنے والے، گائیڈس اور سروس پروائیڈرس شامل ہیں۔ مختلف سروے اس طرح تیار کئے گئے تاکہ ہر یوزر گروپ کومعلومات اور مختلف پہلووں کی خدمات، سہولیات بشمول معاشیات، روزمرہ کے کام اور ٹرانسپورٹ کے طریقہ کار پر اطمینان کی سطح معلوم ہوسکے۔
ترقیاتی پروجیکٹس کی تیاری ایک مبسوط عمل ہے جو لازمی ہے اور اس کے بعد ماحولیات پر پروجیکٹ کے امکانی اثرات، معیشت کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی کا عنصر بھی کافی اہم ہے۔
عوام کا کیا خیال ہے چارمینار کے لیے!
عوام کے خیالات، نظریات اور ضروریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ چارمینار علاقہ کے زون میں زیادہ لوگ آتے ہیں، اس سروے میں عوام سے یہاں کی خدمات، سہولیات، دیکھ بھال کے 11 مختلف پہلوؤں پر رائے اور تجاویز لی گئی۔
سینیئر صحافی وسنتا شوبھا تُراگا کنزرویشن آرکیٹکٹ۔اربن پلانر کا ماننا ہے کہ پیدل راہرو زون کے دکاندار اور چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ سے متاثرافراد نے کئی سہولیات پر عدم اطمینان کااظہار کیا۔ اس پروجیکٹ سے رسمی طورپر دکاندار،گائیڈس اور دیگر جو اس پروجیکٹ سے مثبت فائدہ کے خواہشمند تو ہیں تاہم یہ افراد کئی چیزوں میں بہتری چاہتے ہیں۔
ماحول دوست رکشاؤں کی دستیابی اور معمر شہریوں کی ناراضگی
چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ میں ماحول دوست رکشاؤں یا بیٹری سے چلنے والی منزل پر پہنچانے والی گاڑیاں فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ معمرشہریوں اور جسمانی معذورین کے لئے کوئی خاص سہولیات نہیں ہیں۔ مکہ مسجد آنے والے افراد اور یونانی ہسپتال سے رجوع ہونے والے افراد کو رکاوٹ سے پاک رسائی نہ ہونے سے مسائل کا سامنا ہے۔
معمر شہریوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چارمینار پیدل راہرو جیسے بڑے پروجیکٹ میں ان کو فراموش کردیا گیا اور پختہ فرش بنانے کے عمل کے دوران وہیل چیریا کسی بھی چیز کا سہارا لیتے ہوئے آہستہ چلنے والوں کے لئے کوئی گزرگاہ یا راستہ فراہم نہیں کیاگیا۔ بیٹھنے یا آرام کرنے کے لئے کوئی گنجائش کا فراہم نہ کرنا بھی یہاں آنے والوں یا ہاکرس کے لئے مشکل کا سبب بنا ہوا ہے۔
چارمینار کے ارد گرد درختوں کا ہونا ضروری
چارمینار کے علاقہ میں درختوں کو کم ترجیح دی گئی ہے۔ سرسبزی وشادابی کی کمی کا اثر بھی پیدل راہرو پروجیکٹ پر ہوا ہے۔ چونکہ لوگ پہلے سے زیادہ وقت اس یادگار کی طرف صرف کر رہے ہیں،ٹریفک سے پاک اس کے علاقہ کے اطراف گھوم رہے ہیں، سائبان کی کمی اور گرمی کا راست اثر اور آلودگی وہ محسوس کر رہے ہیں۔
ہاکرس اور کاروباری افراد جو زیادہ تر وقت یہاں پر ٹہر کر صرف کرتے ہیں اور گھومتے ہیں کو اس سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقہ کے دکاندار، اس پیدل راہرو پروجیکٹ سے ناراض ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس پروجیکٹ کے نتیجہ میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ چھوٹے کاروبار کرنے والوں پر کنٹرول کیا جائے اور چھوٹے کاروباری افراد کو محدود کیاجائے۔
علاقہ میں اربن ڈیزائن کنٹرول کی کمی کی نشاندہی یہاں آنے والوں نے کی۔حیدرآباد کے عظیم ثقافتی ورثہ کو فروغ دینے کے لئے کئی تجاویز سامنے آئی ہیں، ہیریٹیج واک کے ذریعہ دیگر ہیریٹیج اور مشہور فن تعمیر کے نمونوں کے ساتھ اس کو بہتر طورپر مربوط کیاجانا چاہئے۔ اس پروجیکٹ کے حصہ کے طورپر یہاں آنے والوں کو حیدرآبادی ثقافت، دستکاری اور پکوان کے بارے میں واقف کروانے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔
سکیورٹی کی کمی، اور خواتین گائیڈ کی ضرورت
اس یادگار میں جانے کے لئے کوئی سکیورٹی چیک نہیں ہے جو خطرہ کی بات ہے، سیکوریٹی چیک اب تمام اہم مقامات کی معمول کی خصوصیت ہے۔ ایک اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کو کئی ہاکرس کے زیراستعمال عوامی بیت الخلاؤں کا استعمال کرنا پڑرہا ہے جس کو خراب صورتحال میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پروجیکٹ کے تحت کافی کم تعداد میں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والی خواتین دیکھی جارہی ہیں۔
اگرچہ کہ سیاح بیشتر خواتین ہیں تاہم خاتون گائیڈس نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کو اس علاقہ کی پیچھے کی سڑکوں میں گھریلو صنعت تک ہی محدود کردیاگیا ہے۔ یہ تجزیہ چارمینار پیدل راہرو پروجیکٹ پر نظرثانی کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
بہتر سہولیات سے لے کر سرسبزی وشادابی تک، صنفی حساسیت سے لے کر معمرشہریوں کو سہولیات پہنچانے تک، آلودگی پر قابو پانے سے لے کر مزید مجموعی سیاحتی تجربہ تک، عوام کی رائے اورضروریات تک بھی اس پروجیکٹ کے سلسلہ میں بعض اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے چارمینار کویادگار تجربہ والا مخصوص علاقہ بنایاجاسکتا ہے۔