ETV Bharat / bharat

کیا بھارت چین کی مکاری کے خلاف حکمت کا مظاہرہ کرے گا؟

author img

By

Published : Sep 1, 2020, 9:48 PM IST

ایران پر امریکی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے بیجنگ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور خلیجی ممالک کے ٹھکرائے ہوئے اس ملک کو اپنا پارٹنر بنایا۔ چین نے ایران کے ساتھ ایک ڈیل، جو ابھی رسمی طور پر روبہ عمل نہیں آئی ہے، کے تحت اگلے پچیس سال میں چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران سے متعلق امریکی پالیسی سے انحراف کرنے میں بھارت کی آنا کانی کے نتیجے میں چین نے موقعے کا فائدہ اٹھایا۔ اب یہ بھارت کی باری ہے کہ وہ حکمت سے بھر پور اقدام کرے۔

will wisdom of india prevail against treachery of chinas?
کیا بھارت چین کی مکاری کے خلاف حکمت کا مظاہرہ کرے گا؟

توانائی کے ذخائر سے مالا مال وسط ایشیا کے بازاروں تک رسائی کے لئے بھارت نے ہمیشہ مختصر تجارتی راہداریوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس پس منظر میں ایران اپنی جغرافیائی لوکیشن کے اعتبار سے بھارت کا ایک فطری پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چہا بہار بندر گاہ کی وساطت سے تجارتی تعلقات بھارت کو اپنے تجارتی رابطے وسط ایشیائی ممالک تک وسیع کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ اس مقصد کےلئے بھارت نے پاکستان کو پس پشت ڈالتے ہوئے براہ راست افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری قائم کرنا چاہی، جو صرف چہا بہار کی وساطت سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ ایران اور افغانستان ایک دوسرے سے بری طور جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایران اور بھارت ایک دوسرے صرف بحری اور فضائی رابطوں سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان ایک لینڈ لاکڈ یعنی خشکی سے محصور ملک ہے اور اس وجہ سے اشیاء کی برآمدگی کے لئے اس کا انحصار پاکستان پر ہے۔ افغانستان خود بھی متبادل تجارتی راہداریاں قائم کرکے پاکستان پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن متبادل تجارتی راہداریوں کی اُس کی تلاش قاسم سلیمانی، جو ایک معروف ایرانی جنرل تھے، جو شمالی افغانستان میں شہرت رکھتے تھے اور ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ بھی تھے، کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔

سلیمانی نے اس بندرہ گاہ (چہا بہار) کے ذریعے تین ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں اپنا ایک کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہزاراہ اور افغانستان کی شعیہ اقلیت میں بے حد مقبول تھے، جس کی وجہ سے وہ افغان قیادت کو ایران اور بھارت کے ساتھ رشتے قائم کرنے پر راضی کرنے کی صلاحیت کے حامل تھے۔ ایرانی سفارتکار اور حیدر آباد میں ایرانی قونصل جنرل، محمد حق بن نحومی نے اِ س نمائندے کو بتایا، ’’قاسم ہی وہ شخص تھے، جنہوں نے بنیادی طور پر اس منصوبے کا خاکہ تیار کرکے اسے عملایا اور تین ممالک کو یک جٹ کیا۔‘‘

آئی آر جی (اسلامک ریولیوشنری گارڈز) گروپ، جسے امریکا نے ممنوعہ قرار دیا ہے، بھارت کے لئے گومگو کی کیفیت کا سبب بنا۔ اس گروپ کے ساتھ کسی بھی طرح کی قربت کا مطلب امریکا کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے مترادف ہے۔ تجارت سے متعلق سرگرمیوں میں قاسم کی مداخلت بہت کم تھی۔ چابہار بندرگاہ، جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے محض 68 کلو میٹر کی دُوری پر واقع ہے، ایران کے صوبہ سیستان میں واقع ہے۔ اس وجہ سے یہ افغان حکومت کےلئے باعث کشش تھا کیونکہ (بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان) سہ ملکی معاہدے کی رو سے افغانستان بھارت کو برائے نام ادائیگی کے عوض اس بندرگاہ کو استعمال کرسکتا تھا۔ یہ بندرگاہ، پاکستان کو پس پشت ڈالتے ہوئے، بھارت کو افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک تک رسائی دیتا ہے۔ اس بندر گاہ کی وجہ سے افغانستان کے لئے پاکستان کی معاشی اہمیت کم ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت افغانستان کو متبادل تجارتی راستے کے لئے پاکستان پر انحصار ختم ہوجاتا ہے۔

ایک دہائی قبل چابہار اور افغانستان کے درمیان سڑک رابطہ قائم کیا گیا تھا۔ یہ سڑک جنوبی افغانستان کے ہیرت اور قندھار سے جاملتی ہے۔ یہ سڑک کابل اور افغانستان کے شمالی حصے کو بھی جوڑتی ہے، جہاں ہزاراہ کا غلبہ ہے۔ اگر مجوزہ ریل لنک کی تعمیر بروقت ہوجاتی تو اس کا فائدہ افغانستان، ایران اور بھارت کو یکساں طور پر ملتا۔ وسط ایشیا تک بھارت کی رسائی کا مختصر راستہ چا بہار۔افغانستان سے گزرتا ہے۔ ایران اور بھارت نے چابہار سے زاہدان تک کی ریل لنک بچھانے کے معاہدے پر چار سال پہلے دستخط ہوچکے ہیں لیکن عملی طور پر اس کی تعمیر شروع نہیں ہوئی۔ اصل میں معاہدے کی رو سے اس تعمیراتی پروجیکٹ کا مکمل کام بھارت کی تعمیراتی ایجنسی اِرکان (IRCON ) کو کرنا تھا۔ لیکن مسئلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب ایران نے اس تعمیراتی پروجیکٹ میں اپنی ایک کمپنی کو شامل کرنا چاہا۔ بھارت کے لئے یہ تجویز ناقابل قبول تھی کیونکہ ایران اپنی جس کمپنی کو پروجیکٹ میں شامل کرنا چاہتا تھا، اس کا تعلق آئی آر جی (اسلامک ریولیوشنری گارڈز) کے ساتھ تھا۔ یہ ایک ایسا فورس ہے ، جو امریکا کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ سلیمانی، جنہوں نے افغانستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس سال 3 جنوری کو عراق میں امریکی فورسز کے ڈرون حملے میں مارے گئے۔ اُن کی موت سے چابہار۔ زاہدان ریل لنک کا پروجیکٹ التوا میں پڑ گیا۔ بھارت نے اس پروجیکٹ کے حوالے سے اس لئے سرد مہری کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ اپنے زیادہ اہم اتحادی یعنی امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ایران سے تعلقات کے حوالے سے بھارت نے ’’سب کے ساتھ مشغول رہنے لیکن کسی کا بھی اتحادی نہ بننے‘‘ کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ بھارت کو اس حکمت عملی کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، کیونکہ چین نے مبینہ طور پر چابہار بندر گاہ سے افغانستان تک کی ریل لنک تعمیر کرنے کے منصوبے کے حوالے سے ایران کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے۔

حق بن نحومی اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’چین ریلوے پروجیکٹ کے حوالے سے صرف رہنمائی کرے گا لیکن باقی سارا کام ایران بذاتِ خود کرے گا۔‘‘ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ چابہار۔ زاہدان ریل لنک کی تعمیر کے لئے اپنے ذرائع استعمال کرے گا۔

بی آر آئی (بارڈر روڈ انیشیٹو) اور سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری)، جو گوادر بندرگاہ سے بین الاقوامی بازاروں تک پہنچنے کے ہر موسم میں بحال رہنے والے راستے ہیں، میں چین سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اگر چابہار ۔زاہدان ریل پروجیکٹ بھارت کے تعاون سے روبہ عمل آیا ہوتا تو اس کی وجہ سے بی آر آئی اور سی پیک، جو معاشی لحاظ سے چین کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل راستے ہیں، جو چیلنج درپیش آجاتا۔

ایران پر امریکی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے بیجنگ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور خلیجی ممالک کے ٹھکرائے ہوئے اس ملک کو اپنا پارٹنر بنایا۔ چین نے ایران کے ساتھ ایک ڈیل، جو ابھی رسمی طور پر روبہ عمل نہیں آئی ہے، کے تحت اگلے پچیس سال میں چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران سے متعلق امریکی پالیسی سے انحراف کرنے میں بھارت کی آنا کانی کے نتیجے میں چین نے موقعے کا فائدہ اٹھایا۔

اب یہ بھارت کی باری ہے کہ وہ حکمت سے بھر پور اقدام کرے، تاکہ نہ صرف چین ایران کے ساتھ ڈیل کرنے سے رُک جائے بلکہ امریکا کو ناراض کئے بغیر ہی بھارت کےلئے توانائی کے ذخائر سے مالا مال خیلجی خطے کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوجائے۔ چین کی مکاری کے خلاف حکمت کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔

توانائی کے ذخائر سے مالا مال وسط ایشیا کے بازاروں تک رسائی کے لئے بھارت نے ہمیشہ مختصر تجارتی راہداریوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس پس منظر میں ایران اپنی جغرافیائی لوکیشن کے اعتبار سے بھارت کا ایک فطری پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چہا بہار بندر گاہ کی وساطت سے تجارتی تعلقات بھارت کو اپنے تجارتی رابطے وسط ایشیائی ممالک تک وسیع کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ اس مقصد کےلئے بھارت نے پاکستان کو پس پشت ڈالتے ہوئے براہ راست افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری قائم کرنا چاہی، جو صرف چہا بہار کی وساطت سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ ایران اور افغانستان ایک دوسرے سے بری طور جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایران اور بھارت ایک دوسرے صرف بحری اور فضائی رابطوں سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔

افغانستان ایک لینڈ لاکڈ یعنی خشکی سے محصور ملک ہے اور اس وجہ سے اشیاء کی برآمدگی کے لئے اس کا انحصار پاکستان پر ہے۔ افغانستان خود بھی متبادل تجارتی راہداریاں قائم کرکے پاکستان پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن متبادل تجارتی راہداریوں کی اُس کی تلاش قاسم سلیمانی، جو ایک معروف ایرانی جنرل تھے، جو شمالی افغانستان میں شہرت رکھتے تھے اور ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ بھی تھے، کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔

سلیمانی نے اس بندرہ گاہ (چہا بہار) کے ذریعے تین ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں اپنا ایک کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہزاراہ اور افغانستان کی شعیہ اقلیت میں بے حد مقبول تھے، جس کی وجہ سے وہ افغان قیادت کو ایران اور بھارت کے ساتھ رشتے قائم کرنے پر راضی کرنے کی صلاحیت کے حامل تھے۔ ایرانی سفارتکار اور حیدر آباد میں ایرانی قونصل جنرل، محمد حق بن نحومی نے اِ س نمائندے کو بتایا، ’’قاسم ہی وہ شخص تھے، جنہوں نے بنیادی طور پر اس منصوبے کا خاکہ تیار کرکے اسے عملایا اور تین ممالک کو یک جٹ کیا۔‘‘

آئی آر جی (اسلامک ریولیوشنری گارڈز) گروپ، جسے امریکا نے ممنوعہ قرار دیا ہے، بھارت کے لئے گومگو کی کیفیت کا سبب بنا۔ اس گروپ کے ساتھ کسی بھی طرح کی قربت کا مطلب امریکا کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے مترادف ہے۔ تجارت سے متعلق سرگرمیوں میں قاسم کی مداخلت بہت کم تھی۔ چابہار بندرگاہ، جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے محض 68 کلو میٹر کی دُوری پر واقع ہے، ایران کے صوبہ سیستان میں واقع ہے۔ اس وجہ سے یہ افغان حکومت کےلئے باعث کشش تھا کیونکہ (بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان) سہ ملکی معاہدے کی رو سے افغانستان بھارت کو برائے نام ادائیگی کے عوض اس بندرگاہ کو استعمال کرسکتا تھا۔ یہ بندرگاہ، پاکستان کو پس پشت ڈالتے ہوئے، بھارت کو افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک تک رسائی دیتا ہے۔ اس بندر گاہ کی وجہ سے افغانستان کے لئے پاکستان کی معاشی اہمیت کم ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت افغانستان کو متبادل تجارتی راستے کے لئے پاکستان پر انحصار ختم ہوجاتا ہے۔

ایک دہائی قبل چابہار اور افغانستان کے درمیان سڑک رابطہ قائم کیا گیا تھا۔ یہ سڑک جنوبی افغانستان کے ہیرت اور قندھار سے جاملتی ہے۔ یہ سڑک کابل اور افغانستان کے شمالی حصے کو بھی جوڑتی ہے، جہاں ہزاراہ کا غلبہ ہے۔ اگر مجوزہ ریل لنک کی تعمیر بروقت ہوجاتی تو اس کا فائدہ افغانستان، ایران اور بھارت کو یکساں طور پر ملتا۔ وسط ایشیا تک بھارت کی رسائی کا مختصر راستہ چا بہار۔افغانستان سے گزرتا ہے۔ ایران اور بھارت نے چابہار سے زاہدان تک کی ریل لنک بچھانے کے معاہدے پر چار سال پہلے دستخط ہوچکے ہیں لیکن عملی طور پر اس کی تعمیر شروع نہیں ہوئی۔ اصل میں معاہدے کی رو سے اس تعمیراتی پروجیکٹ کا مکمل کام بھارت کی تعمیراتی ایجنسی اِرکان (IRCON ) کو کرنا تھا۔ لیکن مسئلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب ایران نے اس تعمیراتی پروجیکٹ میں اپنی ایک کمپنی کو شامل کرنا چاہا۔ بھارت کے لئے یہ تجویز ناقابل قبول تھی کیونکہ ایران اپنی جس کمپنی کو پروجیکٹ میں شامل کرنا چاہتا تھا، اس کا تعلق آئی آر جی (اسلامک ریولیوشنری گارڈز) کے ساتھ تھا۔ یہ ایک ایسا فورس ہے ، جو امریکا کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ سلیمانی، جنہوں نے افغانستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس سال 3 جنوری کو عراق میں امریکی فورسز کے ڈرون حملے میں مارے گئے۔ اُن کی موت سے چابہار۔ زاہدان ریل لنک کا پروجیکٹ التوا میں پڑ گیا۔ بھارت نے اس پروجیکٹ کے حوالے سے اس لئے سرد مہری کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ اپنے زیادہ اہم اتحادی یعنی امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ایران سے تعلقات کے حوالے سے بھارت نے ’’سب کے ساتھ مشغول رہنے لیکن کسی کا بھی اتحادی نہ بننے‘‘ کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ بھارت کو اس حکمت عملی کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، کیونکہ چین نے مبینہ طور پر چابہار بندر گاہ سے افغانستان تک کی ریل لنک تعمیر کرنے کے منصوبے کے حوالے سے ایران کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے۔

حق بن نحومی اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’چین ریلوے پروجیکٹ کے حوالے سے صرف رہنمائی کرے گا لیکن باقی سارا کام ایران بذاتِ خود کرے گا۔‘‘ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ چابہار۔ زاہدان ریل لنک کی تعمیر کے لئے اپنے ذرائع استعمال کرے گا۔

بی آر آئی (بارڈر روڈ انیشیٹو) اور سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری)، جو گوادر بندرگاہ سے بین الاقوامی بازاروں تک پہنچنے کے ہر موسم میں بحال رہنے والے راستے ہیں، میں چین سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اگر چابہار ۔زاہدان ریل پروجیکٹ بھارت کے تعاون سے روبہ عمل آیا ہوتا تو اس کی وجہ سے بی آر آئی اور سی پیک، جو معاشی لحاظ سے چین کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل راستے ہیں، جو چیلنج درپیش آجاتا۔

ایران پر امریکی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے بیجنگ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور خلیجی ممالک کے ٹھکرائے ہوئے اس ملک کو اپنا پارٹنر بنایا۔ چین نے ایران کے ساتھ ایک ڈیل، جو ابھی رسمی طور پر روبہ عمل نہیں آئی ہے، کے تحت اگلے پچیس سال میں چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایران سے متعلق امریکی پالیسی سے انحراف کرنے میں بھارت کی آنا کانی کے نتیجے میں چین نے موقعے کا فائدہ اٹھایا۔

اب یہ بھارت کی باری ہے کہ وہ حکمت سے بھر پور اقدام کرے، تاکہ نہ صرف چین ایران کے ساتھ ڈیل کرنے سے رُک جائے بلکہ امریکا کو ناراض کئے بغیر ہی بھارت کےلئے توانائی کے ذخائر سے مالا مال خیلجی خطے کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوجائے۔ چین کی مکاری کے خلاف حکمت کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.