بی جے پی کی طرف سے مالیگاؤں بلاسٹ کیس کی کلیدی ملزم سادھوی پرگیہ کو امیدوار بنائے جا نے کے بعد بھوپال پارلیمانی سیٹ آج کل سرخیوں میں ہے۔
پرگیہ سنگھ ٹھا کر کو کانگریس کے امیدوار اور سینیئر رہنما دگوجئے سنگھ کے خلاف میدان میں اتارا گیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ سادھوی پرگیہ کیا دگ وجئے سنگھ کو شکست دے پائیں گی۔
غورطلب ہے کہ اس پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے محض کچھ ہی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ایک بار سابق صدر شنکر دیال شرما اور آخری دفعہ کے این پردھان انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بھوپال پر لگاتار بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے۔
ایسے میں بی جے پی یہ پارلیمانی سیٹ اتنی آسانی سے کھونا نہیں چاہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیراعلی کمل ناتھ نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران دگ وجئے سنگھ کے نام کا اعلان کیا تھا۔
دگ وجے سنگھ کے نام کا اعلان ہو نے کے بعد بی جے پی کے قد آور رہنما اس سیٹ سے انتخاب لڑنے سے گھبرا رہے تھے۔
بی جے پی تذبذب میں مبتلا تھی،کیونکہ سبھی بڑے رہنما ایک دوسرے پر ٹھیکرا فوڑنا چاہتے تھے۔ جس میں سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ،اوما بھارتی، مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر اور موجودہ پارلیمنٹ آلوک سنجر تک کے نام آئے۔ لیکن کوئی بھی دگ وجئے سنگھ کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا۔
اس سیٹ سے قریب پانچ لاکھ 10 ہزار مسلم ووٹ کو ایک بڑا فیکٹر ماناجا تا ہے،جس کی وجہ سے یہاں سے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہ رہا تھا۔
دوسری جانب ابھی حال میں کانگریس کی حکومت بنی اور بھوپال کے دو رکن اسمبلی کمل ناتھ کی وزارت میں شامل ہیں۔
ایسے میں بی جے پی کے پاس فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔
سادھوی پرگیہ کو پارٹی میں شامل کرنا اور امیدوار بنانے سے یہ پیغام جاتا ہے۔
پرگیہ نے بھی امیدوار بنتے ہی کہا،'یہ مذہبی جنگ ہے اور دگ وجئے سنگھ میرے مقابلے میں کہیں نہیں ہیں۔'
قبائلی طبقے کا رجحان دگوجئے سنگھ کو جاتے ہوئے دکھتا ہے۔گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ایسا لگا کہ جو قبائلی ووٹرز کانگریس سے دور ہو گیا تھا وہ پھر سے ان کی طرف لوٹ رہاہے۔
یہاں کا مسلمان اور کایستھ ووٹرز اہم ہے۔ کایستھ ووٹرز یہاں دو سے ڈھائی لاکھ کے درمیان ہیں۔
بھوپال کے ووٹرز کا بی جے پی کی جانب رہاہے۔ ایسے میں دگ وجئے کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔
اب جس طرح سے بی جے پی نے سادھوی پرگیہ کو امیدوار بنایا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس انتکاب کو ہندو۔مسلم کرا دینا ہیں۔
خیر اب کیا ہوتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
پرگیہ ٹھاکر دگ وجئے سنگھ کو شکست دے پائیں گی؟
بھوپال کا پارلیمانی سیٹ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہاں قریب پانچ لاکھ 10 ہزار مسلم ووٹ ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کے قد آور رہنما دگ وجے سنگھ کے خلاف انتخاب نہیں لڑنا چاہ رہے تھے۔
بی جے پی کی طرف سے مالیگاؤں بلاسٹ کیس کی کلیدی ملزم سادھوی پرگیہ کو امیدوار بنائے جا نے کے بعد بھوپال پارلیمانی سیٹ آج کل سرخیوں میں ہے۔
پرگیہ سنگھ ٹھا کر کو کانگریس کے امیدوار اور سینیئر رہنما دگوجئے سنگھ کے خلاف میدان میں اتارا گیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ سادھوی پرگیہ کیا دگ وجئے سنگھ کو شکست دے پائیں گی۔
غورطلب ہے کہ اس پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے محض کچھ ہی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ایک بار سابق صدر شنکر دیال شرما اور آخری دفعہ کے این پردھان انتخاب میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بھوپال پر لگاتار بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے۔
ایسے میں بی جے پی یہ پارلیمانی سیٹ اتنی آسانی سے کھونا نہیں چاہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیراعلی کمل ناتھ نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران دگ وجئے سنگھ کے نام کا اعلان کیا تھا۔
دگ وجے سنگھ کے نام کا اعلان ہو نے کے بعد بی جے پی کے قد آور رہنما اس سیٹ سے انتخاب لڑنے سے گھبرا رہے تھے۔
بی جے پی تذبذب میں مبتلا تھی،کیونکہ سبھی بڑے رہنما ایک دوسرے پر ٹھیکرا فوڑنا چاہتے تھے۔ جس میں سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ،اوما بھارتی، مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر اور موجودہ پارلیمنٹ آلوک سنجر تک کے نام آئے۔ لیکن کوئی بھی دگ وجئے سنگھ کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا۔
اس سیٹ سے قریب پانچ لاکھ 10 ہزار مسلم ووٹ کو ایک بڑا فیکٹر ماناجا تا ہے،جس کی وجہ سے یہاں سے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہ رہا تھا۔
دوسری جانب ابھی حال میں کانگریس کی حکومت بنی اور بھوپال کے دو رکن اسمبلی کمل ناتھ کی وزارت میں شامل ہیں۔
ایسے میں بی جے پی کے پاس فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔
سادھوی پرگیہ کو پارٹی میں شامل کرنا اور امیدوار بنانے سے یہ پیغام جاتا ہے۔
پرگیہ نے بھی امیدوار بنتے ہی کہا،'یہ مذہبی جنگ ہے اور دگ وجئے سنگھ میرے مقابلے میں کہیں نہیں ہیں۔'
قبائلی طبقے کا رجحان دگوجئے سنگھ کو جاتے ہوئے دکھتا ہے۔گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ایسا لگا کہ جو قبائلی ووٹرز کانگریس سے دور ہو گیا تھا وہ پھر سے ان کی طرف لوٹ رہاہے۔
یہاں کا مسلمان اور کایستھ ووٹرز اہم ہے۔ کایستھ ووٹرز یہاں دو سے ڈھائی لاکھ کے درمیان ہیں۔
بھوپال کے ووٹرز کا بی جے پی کی جانب رہاہے۔ ایسے میں دگ وجئے کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔
اب جس طرح سے بی جے پی نے سادھوی پرگیہ کو امیدوار بنایا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس انتکاب کو ہندو۔مسلم کرا دینا ہیں۔
خیر اب کیا ہوتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
salman
Conclusion: