پارلیمنٹ کی جانب سے 11 دسمبر 2019 کو پاس کیے گئے شہریت ترمیمی ایکٹ پر ملک کی آبادی کا ایک حصے میں اضطراب پیدا ہوگیا۔ ان میں سے بعض نے ملک کے مختلف حصوں میں صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کے نتیجے میں تین پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھارت میں داخل ہونے والے ہندئوں، سکھوں، بودھوں، جین، پارسیوں اور عیسائیوں، جو31دسمبر سے پہلے بھارت میں گھسے ہیں انہیں فوری طور پر شہریت دینے کی راہ ہموار کردی گئی ہیں۔
شہریت ترمیمی ایکٹ میں غیر مسلم مہاجرین کے لئے شہریت کا حصول آسان بنایا گیا ہے۔ جبکہ اس ایکٹ میں مسلمانوں کو اس طرح سے شہریت فراہم کرنے کے معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
چونکہ مسلم مہاجرین اس ایکٹ کی رو سے شہریت حاصل کرنے سے قاصر ہیں، اس لئے ان میں سے کچھ احتجاج کررہے ہیں اور آئین کی رو سے اس ایکٹ کی اہمیت اور حکومت کی نیت پر سوال کھڑے کررہے ہیں۔
ملک میں چل رہے احتجاج کی وجہ بنیادی طور پر خوف ہے اور خوف اس لیے ہے کہ یہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے نتیجے میں عملی طور پر مسلم طبقہ ملک کی شہریت سے محروم ہوجائیں گے۔
حکومت نے بیان جاری کیا تھا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نتیجے میں ملک کے شہریوں کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، لیکن حکومت کی اس وضاحت کے بعد سے بھی تناؤ کم نہیں ہوا ہے۔
پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصے سے، یعنی جب سے یہ ایکٹ پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ اس کے خلاف مختلف شکلوں اور مختلف شدتوں کے ساتھ احتجاج کی لہر جاری ہے۔ حالانکہ آسام سے نئی دلی تک جاری یہ احتجاج اہداف کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
اس بیچ دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کے احتجاج نے ہر کسی کو متوجہ کیا ہے۔ یہاں کے احتجاج کو ایک نئی طرح کا ’’ستیہ گرہ ‘‘ کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری شاہین باغ کا یہ احتجاج پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس میں عمومی طور پر خواتین شامل ہیں۔ شاہین باغ کے احتجاج کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جاری احتجاجی لہر میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اس احتجاج کی شہرت نے ششی تھرور جیسے کانگریس پارٹی کے رہنما، عام آدمی پارٹی کے قائدین اور طلبا انجمنوں کے لیڈروں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ جبکہ مدہا پٹکر جیسے سماجی کارکن بھی یہاں تقریر کرنے پہنچ گئے۔
اطلاعات کے مطابق اس احتجاج میں شامل لوگوں کو خاموش کرانے میں دہلی پولیس کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، کیونکہ احتجاج پر بیٹھی خواتین نے یہاں سے ہٹنے سے انکار کیا ہے۔
ایک جانب اپوزیشن ان مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہی ہے اور دوسری جانب حکمران بی جے پی اس احتجاج کو اسکے مخالفین کی کارستانی بتارہی ہے اور الزام لگارہی ہے کہ مظاہرین کو پیسے دیئے گئے ہیں۔ شرکاء احتجاج کی جانب سے اس کو ایک رضاکارانہ تحریک قرار دیا جارہا ہے۔
ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس احتجاج میں شامل خواتین کے آپسی تال میل کو دیکھ کر کئی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ احتجاج رضاکارانہ ہے یا اسے کسی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ سوال اس لئے پوچھا جارہا ہے کیونکہ اس احتجاجی دھرنے میں بڑے پیمانے پر خواتین شامل ہیں۔
پہلے سوال کا جواب شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلا ف احتجاج میں خواتین کی شرکت کی وجوہات مضمر ہے۔ خواتین کا اس احتجاج میں شامل ہونے کی پہلی وجہ جذباتی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ خواتین اور بچوں کو ایک ماہ سے احتجاج کرتے ہوئے دیکھ کر ایک جذباتی پیغام ملتا ہے۔ اس طرح کے احتجاج کو ایک سماجی اعتباریت حاصل ہوتی ہے۔
ماضی میں بھی دنیا میں مختلف مسائل پر خواتین کو احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا گیاہے۔ جیسے کہ یکساں حقوق کے مطالبے کو لیکر سال 1970 اور سال 1980 کی دہائیوں میں امریکہ بھر میں خواتین نے احتجاجی مارچ کئے۔
سال 2000 میں واشنگٹن میں ماؤں نے ’’ملین مام مارچ‘ کا اہتمام کیا، جس کا مقصد بندوق کے آزادانہ استعمال سے متعلق سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرنا تھا۔ تاکہ ان کے بچے محفوظ رہ سکیں۔
بھارت میں بھی منی پور کی خواتین نے اپنے بھر پور احتجاج سے حکومت اور سماج کو متوجہ کیا تھا۔ چونکہ شاہین باغ کے احتجاجی دھرنے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، اس لئے پولیس انہیں یہاں سے ہٹانے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کررہی ہے۔
شاہین باغ کے احتجاج میں خواتین کی شرکت کا دوسرا اہم سبب حکمران بی جے پی کے خلاف سیاسی محاذ کھولنا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک عام تاثر یہی ہے کہ بی جے پی اور بھارت کے مسلمان نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ایک ایسے منظر نامے، جس میں سیاست کو محض چناوی نفع نقصان تک محدود کردیا گیا ہے، بی جے پی کے لئے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنا اہم ہے۔
یہ مانا جاتا ہے کہ سال 2017 میں پارلیمنٹ میں تین طلاق بل کو پیش کرنے اور پھر 30 جولائی 2019 کو اسے پاس کئے جانے کے حوالے سے بی جے پی کو مسلم خواتین کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔
بی جے پی تین طلاق کے خلاف ایکٹ پاس کرنے کے بعد خود کو مسلم خواتین کے مفادات کے حق میں ظاہر کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ لیکن اب شاہین باغ کے احتجاجی دھرنے میں مسلم خواتین کی شمولیت کی وجہ سے بی جے پی کو تین طلاق ایکٹ کے نتیجے میں ہوئی کامیابی زائل ہوسکتی ہے۔
اس لحاظ سے یہ احتجاج منصوبہ بند لگتا ہے۔ یعنی اس دعوے کے برعکس، جس میں کہا جارہا ہے کہ یہ رضاکارانہ احتجاج ہے۔
بہر حال چاہے یہ احتجاج منصوبہ بند ہو یا رضاکارانہ، اس میں خواتین کی بھاری شرکت کے نتیجے میں پالیسی سازوں اور سماج کو ایک اہم پیغام ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کے اہم کردار کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یعنی یہ پیغام ملتا ہے کہ خواتین ان معاملات میں پالیسی سازی اور فیصلہ میں اپنی عملی شرکت کی متمنی ہیں، جو ان کی زندگیوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ جوں جوں حکومت اس ایکٹ کو نافذ کرتی جائے گی، شاہین باغ میں خواتین کے اس دھرنے سے پالیسیوں کے خلاف مزاحمت پر کافی اثرات مرتب ہونگے۔ جب کہ خواتین کا یہ احتجاج سماجی سطح پر اثرات کا حامل ہے۔