بائیکلہ آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے۔ پچاس سال قبل وہاں انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی۔
ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریک کا عوامی اجتماع، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، پریم دھون، جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، اختر الایمان، ظفر گورکھپوری، یوسف ناظم اور عزیز قیصی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں۔
مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ، جمہوریت پسند بنانے، انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا۔
عوامی ادارہ کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کے لیے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے۔ جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے۔
طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں۔
ان کے مطابق اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں، لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کے لیے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں۔