ETV Bharat / bharat

ممبئی: عوامی ادارہ کی خستہ حالی، ذمہ دار کون؟ - ترقی پسند تحریک کا عوامی اجتماع

بھارت کے مغربی شہر ممبئی کے بائیکہ میں واقع عوامی ادارہ کبھی ترقی پسند تحریک کا مرکز ہوا کرتا تھا، لیکن آج یہ ادارہ خستہ حالی کی کیفیت سے دوچار ہے۔

condition of mumbai's awami idara
author img

By

Published : Sep 30, 2019, 3:08 PM IST

Updated : Oct 2, 2019, 2:29 PM IST


بائیکلہ آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے۔ پچاس سال قبل وہاں انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی۔

ممبئی: عوامی ادارہ کی خستہ حالی، ذمہ دار کون؟

ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریک کا عوامی اجتماع، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، پریم دھون، جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، اختر الایمان، ظفر گورکھپوری، یوسف ناظم اور عزیز قیصی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں۔

مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ، جمہوریت پسند بنانے، انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا۔

عوامی ادارہ کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کے لیے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے۔ جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے۔


طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں۔

ان کے مطابق اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں، لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کے لیے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں۔


بائیکلہ آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے۔ پچاس سال قبل وہاں انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی۔

ممبئی: عوامی ادارہ کی خستہ حالی، ذمہ دار کون؟

ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریک کا عوامی اجتماع، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، پریم دھون، جاں نثار اختر، مجروح سلطانپوری، اختر الایمان، ظفر گورکھپوری، یوسف ناظم اور عزیز قیصی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں۔

مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ، جمہوریت پسند بنانے، انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا۔

عوامی ادارہ کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کے لیے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے۔ جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے۔


طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں۔

ان کے مطابق اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں، لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کے لیے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں۔

Intro:


بائٹ ... عبدالقادر انصاری عوامی ادارے کے ذمیدار

بائٹ ..ابو عاصم اعظمی رکن اسمبلی

بائٹ ..اسلم شیخ شامی اردو ادیب

عوامی ادارے کی پامالی کا سبب کیا ہے ..خصوصی رپورٹ

بائیکلہ کے آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے ۔ پچاس سال قبل کی وہ انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے خوابوں کے دور کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہو ۔ اس علاقے کے گوشے ، گلیاں ، میدان ، عمارتیں ، کچھ مخدوش دیواریں ان ادھورے انقلابوں کی اداس کہانیاں بیان کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریککا عوامی اجتماع ، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی ، پریم دھون ، جاں نثار اختر ، مجروح سلطانپوری ، اختر الایمان ، ظفر گورکھپوری ، یوسف ناظم اور عزیز قیسی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں-اس پرانے بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو میں دکھتے یہ جوان چہرے ان کی وہ پر خواب آنکھیں ۔ مزدور اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیروں کو توڑ دینے کی وہ روشن امیدیں ، فن کے عروج پر مردوں اور عام محنت کش عوام کا وہ جوش دکھائی دیتا تھا ، عوامی ادارہ کے زمیدار عبدل قادر انصاری بتاتے ہیں



مومن پورہ کی یہ گھنی مسلم بستی ، محمد صدیقی انصاری مارگ ، مولانا آزاد روڈ ، اہل حدیث مسجد جہاں لوگوں کی آمد خاصی ہوا کرتی ہے ۔ اس خستہ حال بستی کی یہ تنگ گلیاں، بی آئی ٹی کی پرانی چالیں، مفلسی کا یہ نیا دیو قامت روپ اور بے گھر مزدوروں کا کبھی نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہو ۔

مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی ۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ بنانے، انہیں سیکولر بنانے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا ۔



تنظیم کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا ۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیئے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کیلئے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے ..جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے ..





طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ

وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں ، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے ۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے ۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں ۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کیلئے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں ۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں ۔

پچھلی تین چار دہائیوں میں دنیا بدل چکی ہے ۔ ملیں بند ہوچکی ہیں انکی زمینیں بک چکی ہیں ۔ مزدور یونینوں میں علاقائی سیاست، بکھراؤ اور آپسی لڑائی جھگڑے عام ہو چکے ہیں ۔۔۔۔صنعتی پیداوار یونٹوں میں ایمرجنسی کے بعد کا وقت ، کنٹریکٹ لیبر، مزدوروں کی چھنٹائی لمبی ہڑتالیں اور معیشت کا گلوبلائزیشن، بیرونی سرمایہ کاری، خدمات کا شعبہ، کمپیوٹر کی آمد، بگ بازار، شاپنگ مال، کیسینو کیپیٹل، نیا درمیانہ طبقہ، صنعتی اکائیوں کے نئے مالک، نئے صنعتی تعلقات، پرانے صنعتی اکائیوں کی تبدیلی، مادہ پرستی اور نئے اصول و ضوابط اس میں سے ہر ایک اس شہر میں ایک طویل داستان ہے عوامی ادارہ ایک ٹوٹا ہوا خواب ہے۔ ۔ الماریاں بند ہیں، کرسیوں اور میزوں پر وقت کی گرد، کمرے میں اندھیرا، اداسی، اجاڑ اور ویرانی کو مات دیتی ویرانی پھیلی ہے ۔ لوگ اب شاید اخبار تک ہی محدود ہو گنےاسی لئے اب عوامی ادارے کا پوری طرح سے مطلب ہی بدل گیا ہے ...









Shahid Ansari

Content Editor



Body:


بائٹ ... عبدالقادر انصاری عوامی ادارے کے ذمیدار

بائٹ ..ابو عاصم اعظمی رکن اسمبلی

بائٹ ..اسلم شیخ شامی اردو ادیب

عوامی ادارے کی پامالی کا سبب کیا ہے ..خصوصی رپورٹ

بائیکلہ کے آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے ۔ پچاس سال قبل کی وہ انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے خوابوں کے دور کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہو ۔ اس علاقے کے گوشے ، گلیاں ، میدان ، عمارتیں ، کچھ مخدوش دیواریں ان ادھورے انقلابوں کی اداس کہانیاں بیان کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریککا عوامی اجتماع ، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی ، پریم دھون ، جاں نثار اختر ، مجروح سلطانپوری ، اختر الایمان ، ظفر گورکھپوری ، یوسف ناظم اور عزیز قیسی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں-اس پرانے بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو میں دکھتے یہ جوان چہرے ان کی وہ پر خواب آنکھیں ۔ مزدور اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیروں کو توڑ دینے کی وہ روشن امیدیں ، فن کے عروج پر مردوں اور عام محنت کش عوام کا وہ جوش دکھائی دیتا تھا ، عوامی ادارہ کے زمیدار عبدل قادر انصاری بتاتے ہیں



مومن پورہ کی یہ گھنی مسلم بستی ، محمد صدیقی انصاری مارگ ، مولانا آزاد روڈ ، اہل حدیث مسجد جہاں لوگوں کی آمد خاصی ہوا کرتی ہے ۔ اس خستہ حال بستی کی یہ تنگ گلیاں، بی آئی ٹی کی پرانی چالیں، مفلسی کا یہ نیا دیو قامت روپ اور بے گھر مزدوروں کا کبھی نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہو ۔

مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی ۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ بنانے، انہیں سیکولر بنانے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا ۔



تنظیم کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا ۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیئے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کیلئے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے ..جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے ..





طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ

وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں ، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے ۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے ۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں ۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کیلئے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں ۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں ۔

پچھلی تین چار دہائیوں میں دنیا بدل چکی ہے ۔ ملیں بند ہوچکی ہیں انکی زمینیں بک چکی ہیں ۔ مزدور یونینوں میں علاقائی سیاست، بکھراؤ اور آپسی لڑائی جھگڑے عام ہو چکے ہیں ۔۔۔۔صنعتی پیداوار یونٹوں میں ایمرجنسی کے بعد کا وقت ، کنٹریکٹ لیبر، مزدوروں کی چھنٹائی لمبی ہڑتالیں اور معیشت کا گلوبلائزیشن، بیرونی سرمایہ کاری، خدمات کا شعبہ، کمپیوٹر کی آمد، بگ بازار، شاپنگ مال، کیسینو کیپیٹل، نیا درمیانہ طبقہ، صنعتی اکائیوں کے نئے مالک، نئے صنعتی تعلقات، پرانے صنعتی اکائیوں کی تبدیلی، مادہ پرستی اور نئے اصول و ضوابط اس میں سے ہر ایک اس شہر میں ایک طویل داستان ہے عوامی ادارہ ایک ٹوٹا ہوا خواب ہے۔ ۔ الماریاں بند ہیں، کرسیوں اور میزوں پر وقت کی گرد، کمرے میں اندھیرا، اداسی، اجاڑ اور ویرانی کو مات دیتی ویرانی پھیلی ہے ۔ لوگ اب شاید اخبار تک ہی محدود ہو گنےاسی لئے اب عوامی ادارے کا پوری طرح سے مطلب ہی بدل گیا ہے ...









Shahid Ansari

Content Editor



Conclusion:


بائٹ ... عبدالقادر انصاری عوامی ادارے کے ذمیدار

بائٹ ..ابو عاصم اعظمی رکن اسمبلی

بائٹ ..اسلم شیخ شامی اردو ادیب

عوامی ادارے کی پامالی کا سبب کیا ہے ..خصوصی رپورٹ

بائیکلہ کے آگری پاڑہ میں مومن پورہ محلہ کی ایک گھنی پرانی مزدور بستی میں میں سے ایک ہے ۔ پچاس سال قبل کی وہ انتہائی عام اور سادہ سی عوامی ادارہ کی عمارت تھی ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے خوابوں کے دور کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہو ۔ اس علاقے کے گوشے ، گلیاں ، میدان ، عمارتیں ، کچھ مخدوش دیواریں ان ادھورے انقلابوں کی اداس کہانیاں بیان کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دور تھا جب اس کمپائونڈ میں ترقی پسند تحریککا عوامی اجتماع ، جلسے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے اور اسٹیج پر کیفی اعظمی ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی ، پریم دھون ، جاں نثار اختر ، مجروح سلطانپوری ، اختر الایمان ، ظفر گورکھپوری ، یوسف ناظم اور عزیز قیسی جیسی شخصیات اس میں شامل ہوتی تھیں-اس پرانے بلیک اینڈ وہائٹ فوٹو میں دکھتے یہ جوان چہرے ان کی وہ پر خواب آنکھیں ۔ مزدور اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیروں کو توڑ دینے کی وہ روشن امیدیں ، فن کے عروج پر مردوں اور عام محنت کش عوام کا وہ جوش دکھائی دیتا تھا ، عوامی ادارہ کے زمیدار عبدل قادر انصاری بتاتے ہیں



مومن پورہ کی یہ گھنی مسلم بستی ، محمد صدیقی انصاری مارگ ، مولانا آزاد روڈ ، اہل حدیث مسجد جہاں لوگوں کی آمد خاصی ہوا کرتی ہے ۔ اس خستہ حال بستی کی یہ تنگ گلیاں، بی آئی ٹی کی پرانی چالیں، مفلسی کا یہ نیا دیو قامت روپ اور بے گھر مزدوروں کا کبھی نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہو ۔

مِل مزدوروں اور بُنکروں کی اس مسلم اکثریتی بستی میں 1952 میں 'عوامی ادارہ ' کی بنیاد پڑی ۔ مزدوروں کو تعلیم یافتہ بنانے، انہیں سیکولر بنانے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک پیدا کرنے کا جوش کار فرما تھا ۔



تنظیم کو یہ نام کیفی اعظمی نے دیا تھا ۔ ایک بڑا تہذیبی مرکز دس ہزار کتابوں کے ذخیرہ کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی سب سے بڑی اردو لائبریری، تہذیب اور مذاہب کا تقابل اور تجزیئے، سیمینار، نشستیں، فلمیں، نوجوان نسل کیلئے ورکشاپس اور فن و مہارت کو جلا بخشنے والے تمام طرح کے پروگرام کی جیتی جاگتی تصویر یہ عوامی ادارہ ہے ..جو آج اپنی بدحالی اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے ..





طویل مدت سے اردو ادب سے جڑے اسلم شیخ کہتے ہیں کہ

وہ اکثر عوامی ادارہ میں جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اردو مشاعرے اور ثقافتی پروگرام اب بھی گاہے بگاہے ہوتے ہیں ، کبھی کچھ پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی کسی کتاب کی تلاش میں بھولے بھٹکے یہاں چلے آتے ہیں لیکن وقت تبدیل ہوچکا ہے ۔ مزدور علاقے کی نئی نسل کی الگ دنیا ہے ۔ عظیم مصنفین کی کتابیں الماریوں میں بند پڑی رہتی ہیں ۔ شعری نشست کی جگہ اب وہاں غریب خواتین کیلئے سلائی کڑھائی، مہندی اور کپڑوں پر پینٹنگز کے کلاس لگتے ہیں ۔ وہ جو ایک چھوٹی سی نشست گاہ تھی جس میں کبھی نظمیں پڑھی جاتی تھیں اور غزل سنائی جاتی تھی وہاں اب گھریلو سلائی مشینیں چل رہی ہیں ۔

پچھلی تین چار دہائیوں میں دنیا بدل چکی ہے ۔ ملیں بند ہوچکی ہیں انکی زمینیں بک چکی ہیں ۔ مزدور یونینوں میں علاقائی سیاست، بکھراؤ اور آپسی لڑائی جھگڑے عام ہو چکے ہیں ۔۔۔۔صنعتی پیداوار یونٹوں میں ایمرجنسی کے بعد کا وقت ، کنٹریکٹ لیبر، مزدوروں کی چھنٹائی لمبی ہڑتالیں اور معیشت کا گلوبلائزیشن، بیرونی سرمایہ کاری، خدمات کا شعبہ، کمپیوٹر کی آمد، بگ بازار، شاپنگ مال، کیسینو کیپیٹل، نیا درمیانہ طبقہ، صنعتی اکائیوں کے نئے مالک، نئے صنعتی تعلقات، پرانے صنعتی اکائیوں کی تبدیلی، مادہ پرستی اور نئے اصول و ضوابط اس میں سے ہر ایک اس شہر میں ایک طویل داستان ہے عوامی ادارہ ایک ٹوٹا ہوا خواب ہے۔ ۔ الماریاں بند ہیں، کرسیوں اور میزوں پر وقت کی گرد، کمرے میں اندھیرا، اداسی، اجاڑ اور ویرانی کو مات دیتی ویرانی پھیلی ہے ۔ لوگ اب شاید اخبار تک ہی محدود ہو گنےاسی لئے اب عوامی ادارے کا پوری طرح سے مطلب ہی بدل گیا ہے ...









Shahid Ansari

Content Editor



Last Updated : Oct 2, 2019, 2:29 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.