ETV Bharat / bharat

اب صحت عامہ ہی میڈیا کی اولین ترجیح

آرتی دھر نے کووڈ 19 کے تناظر میں میڈیا کا شعبہ صحت کی جانب متوجہ ہونے کے تعلق سے کہا ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ سب لوگ طبی عملے کو خدا قرار دینے لگے ہیں۔کیا یہ وہی عملہ نہیں ہے، جس نے پہلے ایچ آئی وی، ایڈز، سارس، ایچ و ن این ون اور یہاں تک کہ تب دق کے امراض کا علاج و معالجہ کرنے میں اپنی خدمات بہم پہنچائی تھیں؟ لیکن ماضی میں کبھی اس عملے کو اتنی توجہ نہیں ملی تھی، جتنی اسے اب مل رہی ہے۔لیکن اس صورتحال میں یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ صحت عامہ سے جڑا موجودہ بحران ہمیں اس شعبے کی اہمیت کا احساس دلائے گا اور یہ توقع بھی رکھی جاسکتی ہے کہ آج کے بعد یہ شعبہ بھی میڈٰیا کی ترجیحات میں شامل رہے گا.

اب صحت عامہ ہی میڈیا کی اولین ترجیح
اب صحت عامہ ہی میڈیا کی اولین ترجیح
author img

By

Published : Apr 13, 2020, 4:52 PM IST

کوروناوائرس (کووِڈ19) نامی یہ وبا پوری دُنیا کے لئے ایک بہت بری خبر ہے۔ اس کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ جہاں اس بیماری سے متاثر ہیں اور وہیں اسکی وجہ سے دُنیا کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت بھی ان تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہے۔

تاہم اس ساری ہلچل میں ایک مثبت بات دیکھنے کو ملی ہے۔ وہ یہ کہ بھارتی میڈٰیا کی توجہ صحت عامہ کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ صحت عامہ سے جڑے لوگ خواہ وہ معالجین ہو یا نیم طبی عملہ ہو یا اس شعبے کا تکنیکی سٹاف ہو یا پھر صفائی کرمچاری ہوں ان سب کی طرف اب تمام اہم میڈیا ادارے متوجہ ہوگئے ہیں۔ اب اخبارات میں ان لوگوں کے حوالے سے کالم شائع ہورہے ہیں، ریڈیو پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر طبی عملے کی تعریفیں کی جارہی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر اُمید کی کرن نظر آرہی ہے۔ ایسا اس لئے کہ ماضی میں کبھی بھی بھارت میں صحت عامہ کے شعبے کو اتنی خاص ترجیح نہیں دی گئی تھی ۔ خاص کر میڈیا نے اس طرف تو بالکل ہی توجہ نہیں دیا تھا۔ میڈیا میں صحت کے شعبے کو تب ہی کوریج ملتی تھی، جب اس شعبے سے متعلق کوئی خاص تقریب منعقد ہوتی تھی۔ چونکہ مجھےصحت عامہ کے حوالے سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کام کرنے کا تجربہ حاصل رہا ہے، اس لئے میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ صحت سے جڑی رپورٹس کو مشکل سے ہی میڈٰیا میں جگہ ملتی ہے۔ صحت عامہ سے جڑی خبروں پر ہمیشہ سیاسی یا جرائم سے جڑی خبروں کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ صحت عامہ سے جڑی خبروں کو صرف تب ہی توجہ ملتی ہے، جب اس سے جڑا کوئی بحران پیدا ہو، یعنی جب ہلاکتیں ہوں اور یہ شعبہ بری طرح متاثر ہو۔

کووِڈ19 سے قبل سال 2003 میں سارس اور سال 2005 میں ایچ ون این ون نامی وبائیں پھوٹنے کے وقت یا پھر ڈینگو اور چکن گوینا نامی بیماریاں پھیلنے کے وقت ہی میڈیا صحت عامہ کے شعبے کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ لیکن ان مواقعوں پر بھی طبی عملہ کبھی بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں رہا۔ بلکہ ہیلتھ کئیر نظام کی خامیوں سے جڑی رپورٹس اور خبریں ہی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔

جب شروع میں اخبارات نے صحت کے شعبے پر لکھنا شروع کیا تو عمومی طور پر ان تحروں میں معیار زندگی یا پھر اس سے جڑی بیماریاں، جیسے کہ ذیابطیس اور بلند فشار خوں جیسے امراض ہی موضوع بحث رہتے تھے۔ بعد میں بعض اخبارات میں صحت عامہ سے متعلق تحقیقی رپورٹس شائع ہونا بھی شروع ہوگئی۔ اس شعبے سے جڑے ٹیلی ویژن پروگراموں کو عمومی طور پر پرائیویٹ اسپتال یا فار ما سیو ٹیکل کمپنیاں ہی سپانسر کرتی رہی ہیں۔

اسی طرح میڈیا میں صحت عامہ کے شعبے کی طرفداری کا رجحان بھی بہت کم تھا۔ چند ایک ہی اخبارات میں صحت سے جڑی تحریرں شامل کی جاتی تھیں اور ہیلتھ رپورٹرز کو کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا۔ یہ سب اس لئے تھا کیونکہ صحت عامہ کا شعبہ کبھی ہماری ترجیح نہیں رہا ہے۔ میڈیا صحت عامہ سے جڑی خبروں کو جگہ نہ دینے کے حوالے سے یہ استدلال پیش کرتا رہا کہ عوام کو ان خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میڈیا سے جڑے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں ٓصحت عامہ سے جڑی سٹوریز شائع کرانے میں اس لئے دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس سپیس پر یہ خبریں لگ جاتی ہیں، اسی سپیس پر اگر اشتہارات لگائے جائیں تو اس کے نتیجے میں ملازمین کو تنخواہیں فراہم ہوسکتی ہیں۔

ہیلتھ کئیر ورکرز کی جانب سے لگن سے کام کرنا کبھی موضوع بحث بن ہی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے انہیں تنخواہیں ملتی ہیں۔ اب جہاں تک طبی شعبے کے تکنیکی اسٹاف کا تعلق ہے، اُن کی طرف تو کوئی بالکل ہی متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ میڈٰیا میں اس طبقے کا ذکر تب ہی آتا تھا جب وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال کرتے ہیں۔ طبی عملے کی جانب سے مقررہ اوقات سے زیادہ وقت تک ڈیوٹی دینے کو نیوز ایڈیٹرز صحت عامہ کے شعبے کی ناکامی سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ سب لوگ طبی عملے کو خدا قرار دینے لگے ہیں! کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں، جنہیں پہلے نظر انداز کیا جاتا تھا؟ کیا یہ وہی عملہ نہیں ہے، جس نے پہلے ایچ آئی وی، ایڈز، سارس، ایچ و ن این ون اور یہاں تک کہ تب دق کے امراض کا علاج و معالجہ کرنے میں اپنی خدمات بہم پہنچائی تھیں؟ لیکن ماضی میں کبھی اس عملے کو اتنی توجہ نہیں ملی تھی، جتنی اسے اب مل رہی ہے۔

بھارت میں سالانہ کسی دیگر یماری کے مقابلے تب دق سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ زیادہ خواتین زچگی کے عمل کے دوران مرجاتی ہیں اور اس سے زیادہ لوگ سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے کیونکہ اسے ایک معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ تب دق کی بیماری کو میڈیا میں صرف ٹی بی کے عالمی دن پر ہی کوریج ملتی ہے، جس دن اس بیماری سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ٹی بی جیسی بیماری کا شکار لوگوں کے علاج و معالجے کے دوران یہی طبی عملہ اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ بعض اوقات اس عملے کو اپنی ڈیوٹی انجام دیتے وقت مریضوں کی جہالت اور غفلت سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ ٹی بی کے بعض مریض روزانہ ادویات لینے سے انکار کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ان ادویات کے سائڈ ایفکٹس کو سہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

شاید بھارت میں اکثر لوگوں نے غیر صحتمند ہو کر جینا سیکھ لیا ہے۔ آج تک کوئی بھئی الیکشن صحت سے جڑے کسی معاملے پر نہیں لڑا گیا ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے صحت عامہ کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس شعبے کے حوالے سے خال خال ہی کوئی اقدام کیا گیا۔ لیکن ان اقدامات کا مقصد کبھی بھی عوامی جانکاری عام کرنا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ہمارے معاشرے میں لوگ جہاں مرضی وہاں تھوکتے نظر نہیں آتے۔ حالانکہ یہی حرکت انفیشکن پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔

ہم واپس اپنے سوال پر آجاتے ہیں۔ اگر آج ہم سمجھتے ہیں کہ طبی عملہ ایک خدائی کام کررہا ہے تو کیا ماضی میں یہ عملہ یہی کام نہیں کرتا رہا ہے؟ ایکری ڈیٹڈ سوشل ہیلتھ ایکٹوسٹس (اے ایس ایچ اے) سالوں سے لوگوں کو صحت سے جڑے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے مہم چلاتے آئے ہیں۔ آج یہی کام ایک بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ جیسے کہ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ حفظان صحت کا خیال رکھیں اور ہاتھ دھو لیں وغیرہ وغیرہ۔ آج سارے لوگوں کی توجہ ان ہی باتوں پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں۔ ہر کوئی اسی موضوع پر بات کررہا ہے۔ در اصل ایسا کرنے کے لئے مختلف لوگوں کے پاس مختلف وجوہات ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو بھی خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں وہ اس بیماری (کورونا وائرس) سے متاثر نہ ہوجائیں۔ بعض لوگ اس وجہ سے بھی اس معاملے کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں کیونکہ میڈیا رات دن اسی ( کورونا وائرس) کو کوریج دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ساری توجہ ہیلتھ کئیر، صاف صفائی اور سیکورٹی اہلکاروں کی طرف مبذول ہوگئی ہے کیونکہ وبا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے ان کی بہت اہمیت ہے۔ وبا کے علاج کی چونکہ ابھی کوئی دوا میسر نہیں ہے، اس لئے پوری دُنیا کا ہیلتھ کیئر نظام ریزہ ریزہ ہورہا ہے۔ اس شعبے پر دباؤ بڑھ گیا ہے کیونکہ ہر فرد کی زندگی کے تحفط کا انحصار انہیں پر ہے۔ پوری دنیا کووِڈ19کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے متحد ہوگئی ہے ۔

اس صورتحال میں یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ صحت عامہ سے جڑا موجودہ بحران ہمیں اس شعبے کی اہمیت کا احساس دلائے گا اور یہ توقع بھی رکھی جاسکتی ہے کہ آج کے بعد یہ شعبہ بھی میڈٰیا کی ترجیحات میں شامل رہے گا.

کوروناوائرس (کووِڈ19) نامی یہ وبا پوری دُنیا کے لئے ایک بہت بری خبر ہے۔ اس کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ جہاں اس بیماری سے متاثر ہیں اور وہیں اسکی وجہ سے دُنیا کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت بھی ان تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہے۔

تاہم اس ساری ہلچل میں ایک مثبت بات دیکھنے کو ملی ہے۔ وہ یہ کہ بھارتی میڈٰیا کی توجہ صحت عامہ کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ صحت عامہ سے جڑے لوگ خواہ وہ معالجین ہو یا نیم طبی عملہ ہو یا اس شعبے کا تکنیکی سٹاف ہو یا پھر صفائی کرمچاری ہوں ان سب کی طرف اب تمام اہم میڈیا ادارے متوجہ ہوگئے ہیں۔ اب اخبارات میں ان لوگوں کے حوالے سے کالم شائع ہورہے ہیں، ریڈیو پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر طبی عملے کی تعریفیں کی جارہی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر اُمید کی کرن نظر آرہی ہے۔ ایسا اس لئے کہ ماضی میں کبھی بھی بھارت میں صحت عامہ کے شعبے کو اتنی خاص ترجیح نہیں دی گئی تھی ۔ خاص کر میڈیا نے اس طرف تو بالکل ہی توجہ نہیں دیا تھا۔ میڈیا میں صحت کے شعبے کو تب ہی کوریج ملتی تھی، جب اس شعبے سے متعلق کوئی خاص تقریب منعقد ہوتی تھی۔ چونکہ مجھےصحت عامہ کے حوالے سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کام کرنے کا تجربہ حاصل رہا ہے، اس لئے میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ صحت سے جڑی رپورٹس کو مشکل سے ہی میڈٰیا میں جگہ ملتی ہے۔ صحت عامہ سے جڑی خبروں پر ہمیشہ سیاسی یا جرائم سے جڑی خبروں کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ صحت عامہ سے جڑی خبروں کو صرف تب ہی توجہ ملتی ہے، جب اس سے جڑا کوئی بحران پیدا ہو، یعنی جب ہلاکتیں ہوں اور یہ شعبہ بری طرح متاثر ہو۔

کووِڈ19 سے قبل سال 2003 میں سارس اور سال 2005 میں ایچ ون این ون نامی وبائیں پھوٹنے کے وقت یا پھر ڈینگو اور چکن گوینا نامی بیماریاں پھیلنے کے وقت ہی میڈیا صحت عامہ کے شعبے کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ لیکن ان مواقعوں پر بھی طبی عملہ کبھی بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں رہا۔ بلکہ ہیلتھ کئیر نظام کی خامیوں سے جڑی رپورٹس اور خبریں ہی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔

جب شروع میں اخبارات نے صحت کے شعبے پر لکھنا شروع کیا تو عمومی طور پر ان تحروں میں معیار زندگی یا پھر اس سے جڑی بیماریاں، جیسے کہ ذیابطیس اور بلند فشار خوں جیسے امراض ہی موضوع بحث رہتے تھے۔ بعد میں بعض اخبارات میں صحت عامہ سے متعلق تحقیقی رپورٹس شائع ہونا بھی شروع ہوگئی۔ اس شعبے سے جڑے ٹیلی ویژن پروگراموں کو عمومی طور پر پرائیویٹ اسپتال یا فار ما سیو ٹیکل کمپنیاں ہی سپانسر کرتی رہی ہیں۔

اسی طرح میڈیا میں صحت عامہ کے شعبے کی طرفداری کا رجحان بھی بہت کم تھا۔ چند ایک ہی اخبارات میں صحت سے جڑی تحریرں شامل کی جاتی تھیں اور ہیلتھ رپورٹرز کو کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا۔ یہ سب اس لئے تھا کیونکہ صحت عامہ کا شعبہ کبھی ہماری ترجیح نہیں رہا ہے۔ میڈیا صحت عامہ سے جڑی خبروں کو جگہ نہ دینے کے حوالے سے یہ استدلال پیش کرتا رہا کہ عوام کو ان خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میڈیا سے جڑے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں ٓصحت عامہ سے جڑی سٹوریز شائع کرانے میں اس لئے دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس سپیس پر یہ خبریں لگ جاتی ہیں، اسی سپیس پر اگر اشتہارات لگائے جائیں تو اس کے نتیجے میں ملازمین کو تنخواہیں فراہم ہوسکتی ہیں۔

ہیلتھ کئیر ورکرز کی جانب سے لگن سے کام کرنا کبھی موضوع بحث بن ہی نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے انہیں تنخواہیں ملتی ہیں۔ اب جہاں تک طبی شعبے کے تکنیکی اسٹاف کا تعلق ہے، اُن کی طرف تو کوئی بالکل ہی متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ میڈٰیا میں اس طبقے کا ذکر تب ہی آتا تھا جب وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہڑتال کرتے ہیں۔ طبی عملے کی جانب سے مقررہ اوقات سے زیادہ وقت تک ڈیوٹی دینے کو نیوز ایڈیٹرز صحت عامہ کے شعبے کی ناکامی سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ سب لوگ طبی عملے کو خدا قرار دینے لگے ہیں! کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں، جنہیں پہلے نظر انداز کیا جاتا تھا؟ کیا یہ وہی عملہ نہیں ہے، جس نے پہلے ایچ آئی وی، ایڈز، سارس، ایچ و ن این ون اور یہاں تک کہ تب دق کے امراض کا علاج و معالجہ کرنے میں اپنی خدمات بہم پہنچائی تھیں؟ لیکن ماضی میں کبھی اس عملے کو اتنی توجہ نہیں ملی تھی، جتنی اسے اب مل رہی ہے۔

بھارت میں سالانہ کسی دیگر یماری کے مقابلے تب دق سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ زیادہ خواتین زچگی کے عمل کے دوران مرجاتی ہیں اور اس سے زیادہ لوگ سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے کیونکہ اسے ایک معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ تب دق کی بیماری کو میڈیا میں صرف ٹی بی کے عالمی دن پر ہی کوریج ملتی ہے، جس دن اس بیماری سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ٹی بی جیسی بیماری کا شکار لوگوں کے علاج و معالجے کے دوران یہی طبی عملہ اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ بعض اوقات اس عملے کو اپنی ڈیوٹی انجام دیتے وقت مریضوں کی جہالت اور غفلت سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ ٹی بی کے بعض مریض روزانہ ادویات لینے سے انکار کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ان ادویات کے سائڈ ایفکٹس کو سہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

شاید بھارت میں اکثر لوگوں نے غیر صحتمند ہو کر جینا سیکھ لیا ہے۔ آج تک کوئی بھئی الیکشن صحت سے جڑے کسی معاملے پر نہیں لڑا گیا ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے صحت عامہ کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس شعبے کے حوالے سے خال خال ہی کوئی اقدام کیا گیا۔ لیکن ان اقدامات کا مقصد کبھی بھی عوامی جانکاری عام کرنا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ہمارے معاشرے میں لوگ جہاں مرضی وہاں تھوکتے نظر نہیں آتے۔ حالانکہ یہی حرکت انفیشکن پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔

ہم واپس اپنے سوال پر آجاتے ہیں۔ اگر آج ہم سمجھتے ہیں کہ طبی عملہ ایک خدائی کام کررہا ہے تو کیا ماضی میں یہ عملہ یہی کام نہیں کرتا رہا ہے؟ ایکری ڈیٹڈ سوشل ہیلتھ ایکٹوسٹس (اے ایس ایچ اے) سالوں سے لوگوں کو صحت سے جڑے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے مہم چلاتے آئے ہیں۔ آج یہی کام ایک بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ جیسے کہ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ حفظان صحت کا خیال رکھیں اور ہاتھ دھو لیں وغیرہ وغیرہ۔ آج سارے لوگوں کی توجہ ان ہی باتوں پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں۔ ہر کوئی اسی موضوع پر بات کررہا ہے۔ در اصل ایسا کرنے کے لئے مختلف لوگوں کے پاس مختلف وجوہات ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو بھی خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں وہ اس بیماری (کورونا وائرس) سے متاثر نہ ہوجائیں۔ بعض لوگ اس وجہ سے بھی اس معاملے کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں کیونکہ میڈیا رات دن اسی ( کورونا وائرس) کو کوریج دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ساری توجہ ہیلتھ کئیر، صاف صفائی اور سیکورٹی اہلکاروں کی طرف مبذول ہوگئی ہے کیونکہ وبا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے ان کی بہت اہمیت ہے۔ وبا کے علاج کی چونکہ ابھی کوئی دوا میسر نہیں ہے، اس لئے پوری دُنیا کا ہیلتھ کیئر نظام ریزہ ریزہ ہورہا ہے۔ اس شعبے پر دباؤ بڑھ گیا ہے کیونکہ ہر فرد کی زندگی کے تحفط کا انحصار انہیں پر ہے۔ پوری دنیا کووِڈ19کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے متحد ہوگئی ہے ۔

اس صورتحال میں یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ صحت عامہ سے جڑا موجودہ بحران ہمیں اس شعبے کی اہمیت کا احساس دلائے گا اور یہ توقع بھی رکھی جاسکتی ہے کہ آج کے بعد یہ شعبہ بھی میڈٰیا کی ترجیحات میں شامل رہے گا.

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.