سپریم کو رٹ نےآج مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سماعت کر تے ہو ئے کہا کہ سبر مالا مندر کیس کی بنیاد پر وہ مساجد میں خواتین کے داخلے پر سماعت کرے گی۔
تاہم سپریم کورٹ نے عرضی دہندگان سےکئی سوالات بھی کیے۔ عدالت نے عرضی دہندگان سے پوچھا کہ کیا انہیں مسجد میں داخلے سے روکا گیا ہے۔
یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے یا اجتماعی معاملہ ہے؟
ہم سمجھ سکتے ہیں۔ اسٹیٹ یکساں حقوق سے انکار نہیں کر سکتا، لیکن کیا مندر اور مسجد اسٹیٹ کے زمرے میں آتے ہیں؟
اگر کو ئی آپ کو مسجد میں داخلے سے منع کیا تو اپ نے پولیس سے اس تعلق سے بات کی؟
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت، قومی کمیشن برائے خواتین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مرکزی وقف بورڈ کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا ہے۔
مساجد میں خواتین کے داخلے اور ایک ساتھ نماز ادا کرنے کی آزادی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی۔
مہاراشٹر کے ایک جوڑے یاسمین زبیر احمد پیر زادہ اور زبیر احمد پیر زادہ نے عرضی داخل کی تھی اور اور سبریمالا مندر کی طرز پر مساجد میں جنسی برابری کا مطالبہ کیا تھا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ مساجد میں خواتین کے دخول پر پابندی عائد کرنا غیر آئینی ہے اور اس کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تی ہے۔
عرضی میں دفعہ 14، 15، 21 اور 29 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی حقوق، یعنی قرآن اور حضرت محمد ﷺ کی فرموادت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پیغمبر نے کبھی بھی مرد۔خواتین کے درمیان امتیازی سلوک روا نہیں رکھا اور یہ ایمان و عقیدے کا معاملہ ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ قرآن میں کبھی بھی خواتین کے مساجد میں داخل ہو کر نماز ادا کرنے کی مخالفت نہیں کی گئی ہے، لیکن بعد قرآن کی غلط تشریح کرنے والوں نے خواتین کے ساتھ بھید بھاؤ کرنا شروع کر دیا۔