مسلم فریق کی وکیل میناکشی اروڑا نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی 'جسٹس ایس اے بوبڈے' جستس ڈی وائی چندر چوڑ' جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی آئینی بنچ کے سامنے دلیل دی کہ متنازع ڈھانچے کے نیچے ایک عیدگاہ ہوسکتا ہے۔ وہاں ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں ملے دیواروں کے باقیات عیدگاہ کے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کل اپنے دلائل میں اے ایس آئی رپورٹ کی صداقت کر سوال کھڑے کئے تھے۔
جسٹس اشوک بھوشن نے محترمہ اروڑا کو اس پر ٹوکتے ہوئے کہا 'مسلم فریق کا تو یہ ماننا رہا ہے کہ مسجد خالی جگہ پر بنائی گئی لیکن اب آپ کہہ رہی ہیں کہ اس کے نیچے عیدگاہ تھا؟ اگر ایسا تھا تو یہ آپ کی عرضی میں شامل کیوں نہیں تھا۔'
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ 1961میں جب انہوں نے کیس دائر کیا تب یہ معاملہ ہی نہیں تھا۔ یہ بات تو 1989میں سامنے آئی جب ہندو فریق نے مقدمہ دائر کرکے دعوی کیا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔
محترمہ اروڑا نے کہا کہ میری اب کی جرح رپورٹ پر مبنی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جب یہ کہا جارہا ہے کہ دیواریں مندر کی ہوسکتی ہیں تو یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیواریں عیدگاہ کی ہیں۔
اس سے پہلے ایک وکیل نے سماعت شروع ہوتے ہی کہا کہ اس کا اور نرموہی اکھاڑہ میں آپس میں زمین کے حق کے سلسلے میں جھگڑا ہے لہذا اسے بھی سنا جائے۔
چیف جسٹس نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا 'کیا ہم روز روز اس کی سماعت کرتے رہیں گے۔ کیا ہم اپنے ریٹائرمنٹ کے آخری دن تک اس کی سماعت کریں گے۔ آج سماعت کا 32واں دن ہے اور آپ اب کہہ رہے ہیں کہ آپ کو بھی سنا جائے۔'
چیف جسٹس نے اس وکیل کی کوئی بھی دلیل سننے سے منع کر دیا۔