اترپردیش کی ایس ٹی ایف نے بتایا کہ دوبے کو اجین سے کانپور لایا جارہا تھا۔ سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ دنیش کمار پی نے میڈیا کو بتایا کہ وکاس کو جمعرات کے روز اجین کے مہاکل علاقے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز اسے ٹرانزٹ ریمانڈ پر کانپور لا رہے تھے کہ بھونتی علاقہ کے قریب گاڑی الٹ گئی، جس سے پولیس اور ایس ٹی ایف کے چار اہلکار زخمی ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے وکاس نے ایک سیکورٹی اہلکار کی پستول لے کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ پولیس ٹیم نے اسے گھیر لیا اور اسے ہتھیار ڈالنے کو کہا لیکن وہ نہیں مانا اور پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی۔ پولیس نے اپنی دفاع میں جوابی فائر نگ کی، جس میں وکاس زخمی ہوگیا۔ اسے فوری طور پر لالہ لاجپت رائے اسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے دوران علاج اسے مردہ قرار دے دیا۔ آج وکاس دوبے کو کانپور دیہات کورٹ میں پیش کیا جانا تھا۔
پورا معاملہ کیا ہے؟
وکاس دوبے کی گرفتاری کے لیے 2 جولائی کی رات 3 تھانوں کی پولیس نے بیکارو گاؤں پر چھاپہ مارا، اس دوران وکاس کے گینگ نے پولیس کی ٹیم پر فائرنگ شروع کر دی جس میں ڈپٹی ایس پی سمیت 8 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔
تین جولائی کو پولیس نے صبح سات بجے وکاس کے ماموں پریم پرکاش پانڈے اور ساتھی اتل دوبے کا انکاؤنٹر کر دیا، 20 سے 22 نامزد افراد سمیت 60 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، بدمعاشوں کو پکڑنے کے لیے ایک طرف ایس ٹی ایف کی ٹیم کو لگایا گیا اور دوسری طرف اس کی گرفتاری کے لیے 40 الگ الگ ٹیموں کو تعینات کیا گیا۔
4 جولائی کو متعدد پولیس اہلکاروں کو وکاس کے ساتھ رابطے میں رہنے اور سازباز کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا۔ ان سبھی پولیس اہلکار پر وکاس دوبے کو پولیس کارروائی کی معلومات فراہم کرنے کا بھی الزام تھا۔ ایس ٹی ایف نے چوبے پور پولیس اسٹیشن کے سربراہ ونے تیواری سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔
5 جولائی کو پولیس نے وکاس کے ملازم اور خصوصی معاون دیا شنکر اگنی ہوتری عرف کالو کے خلاف کارروائی کی، اس دوران اس کا بھی انکاؤنٹر ہوا اور پولیس کی فائرنگ سے دیا شنکر زخمی ہوگیا، دیا شنکر نے انکشاف کیا کہ ووکاس دوبے کو تھانہ کی جانب سے فون آیا تھا۔ فون کے بعد اس نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا۔
6 جولائی کو پولیس نے دیا شنکر کی اہلیہ ریکھا سمیت، امر دوبے کی والدہ چھما دوبے اور دیگر تین کو گرفتار کیا، فائرنگ کے تبادلے کے واقعے کے وقت پولیس نے بدمعاشوں سے بچنے کے لیے چھما سے مدد مانگی تھی، لیکن چھما دوبے نے مدد دینے سے انکار کر دیا تھا، اس معاملے میں پولیس کا کہنا ہے کہ چھما دوبے نے مدد کرنے کے بجائے بدمعاشوں کو پولیس کے مقام کی اطلاع دی تھی اور ریکھا بھی بدمعاشوں کی مدد کررہی تھی۔
7 جولائی کو ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر جا کر وزرا نے ایک کروڑ کی امدادی رقم دی، اسی دن ایس ٹی ایف نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ چوبے پور پولیس اسٹیشن کے ایک داروغہ اور اور ایک سپاہی نے کارروائی سے قبل وکاس دوبے سے فون پر بات چیت کی تھی، یہ دو نام معطل پولیس اہلکاروں میں شامل ہیں۔
8 جولائی کو ایس ٹی ایف نے وکاس کے قریبی امر دوبے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، پربھات مشرا عرف کارتکیہ سمیت متعدد بدمعاشوں کو گرفتار کر لیا، اسی معاملے میں چوبے پور کے سابق ایس او ونئے تیواری اور بیٹ انچارج کے کے شرما کو بھی گرفتار کر لیا گیا، یہ دونوں انکاؤنٹر کے دوران موجود تھے، لیکن وہ بیچ میں ہی اس جگہ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
9 جولائی کو پربھات مشرا عرف کارتکیہ اور رنبیر شکلا عرف باؤا انکاؤنٹر میں ہلاک کردیے گئے، وہیں 9 جولائی کو ہی وکاس دوبے کو اجین سے گرفتار کر لیا گیا، جس کے بعد اب اتر پردیش ایس ٹی ایف کی ٹیم اسے لینے کے لیے مدھیہ پردیش روانہ ہوگئی۔
10 جولائی کو اتر پردیش ایس ٹی ایف کی ٹیم وکاس دوبے کو اجین سے لے کر کانپور دیہات کی طرف آرہی تھی، پولیس کے مطابق 'اسی دوران قافلے کی کار پلٹ گئی، ادھر موقع کا فائدہ اٹھا کر وکاس دوبے نے پولیس کا پستول چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی اور پولیس پر فائرنگ کردی، پولیس نے جوابی کارروائی کی جس میں وکاس دوبے کو کمر اور سینے میں گولی لگی، اور زخمی ہونے کے بعد وہ ہلاک ہو گیا، وکاس دوبے کو جمعہ کو کانپور دیہات کورٹ میں پیش کیا جانا تھا۔