جواہر لعل یونیورسٹی(جے این یو) میں اچانک ہوئی تشددانہ واقعات نے ماحول کو تھوڑا گرم کردیا ہے۔ایک ایسی یونیورسٹی جس کا تعلیمی معیار بھارت کے باقی یونیسورسٹی کے مقابلے اعلی ہے اور جو اپنے اس معیار کو برقرار رکھنا جانتی ہو اور جس کی طلباء یونین کے انتخابات کی تعریفیں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن 5 جنوری اتوار کی شام کے واقعہ کے بعد یہ یونیورسٹی ایک بدترین تشدد کی جگہ بن گئی ہے۔جہاں کے ہاسٹل نے خوفزدہ چیخ و پکار سنی ہے، جسے کیمرہ نے قید بھی کیا ہے اور اس درد ناک منظر کو میڈیا نےملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو دیکھایا۔ایسے واقعات مودی حکومت کے ناپسندیدہ فیصلوں اور اقدامات کے خلاف چل رہی تحریکوں کو اور مضبوط کردیں گے۔اور اب تو بالی ووڈ کی معروف شخصیات جو عام حالات میں بھی حکومت کے کام کی تعریف کرتی آئیں تھی اب وہ شخصیات بھی جے این یو کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کررہی ہیں۔
یہاں تک کہ اداکارہ دیپیکا پدوکون نے کیمپس میں جاکر جے این یو کی طلباء یونین کے زخمی صدر آشی گوش کے ساتھ ملاقات بھی کی۔لیکن موجودہ سرکار سخت چمڑی کی بنی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آرہی ہے۔
مبصرین نے یہ بات فورا محسوس کی کہ محض تین اتوار قبل جامعیہ ملیہ میں ہوئے واقعہ کو لیکر پولس نے جس طرح کا زبردست اور عجلت پسندانہ ردعمل دکھایا تھا ، ایسا جے این یو کے معاملے میں نظر نہیں آیا ۔بلکہ جہاں جامعیہ میں پولس ہاتھ پیر چلاتے ہوئے دیکھی گئی تھی وہیں جے این یو میں جیسے اسکے ہاتھ ہی نہیں اٹھ پا رہے تھے۔جہاں جامعیہ کے طلباء کوہاتھ کھڑا کروا کے یونیورسٹی کیمپس سے زبردستی نکالا گیا تھا وہیں جے این یو میں نا معلوم نقاب پوشوں کو تشددمچانے کے باوجود بھی بڑے آرام سے کیمپس سے چلے جانے کا موقعہ دیا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سرکار جے این یو کے حوالے سے ایک خاص سوچ کی حامل ہے۔
سوراج ابھیان کے یوگندرا یادو ،جنہیں یونیورسٹی کیمپس کے اندر تشددہونے کے وقت کیمپس کے باہر پیٹا گیا تھا ان کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ جے این یو پر دانشورانہ حملے ہوئے ہیں جن کے بعد سیاسی حملے ہوئے ۔جیسے کہ غداری کے الزام کا معاملہ جس میں یونیورسٹی کو منظم طریقے سے بدنام کیا گیا۔یہ سب کچھ اب جسمانی تشدد کی حد تک بڑھ چکا ہے۔پہلے حملہ بی جے پی سے وابستہ اچھی انگریزی بولنے والے دانشوروں ،جیسے سواپن داس گپتا اور چندن مترا کی جانب سے ہوئے۔
جے این یو کے حوالے سے عام شکایت یہ رہی ہے کہ بائیں بازو کی سوچ والوں نے دائیں بازو کی سوچ کے دانشوروں کو کبھی یونیورسٹی میں داخل ہونے اور یہاں پھلنے پھولنے کا موقعہ ہی نہیں دیا ہے۔اگر ہم کچھ دیر کیلئے اس دلیل میں کچھ اصلحیت بھی دیکھیں، تب بھی مگر دائیں بازو کے وہ معروف اور معتبر دانشور ہیں کہاں جوبائیں بازو کے دوست جے این یو کو چلینج کرتے ہوئے قوم پرستی،آزاد بازار،ماحولیاتی تبدیلی اور مودی جیسے مضبوط رہنماؤں کے بارے میں ایک سنجیدہ علمی دلیل پیش کرسکتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو بذات خود دانشوری کے ساتھ مسئلہ ہے اور غالبا یہی بات ہے جو جے این یو پر سیاسی حملے کی وجہ بنتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف جے این یو کی دانشوری کی حقارت کی جاتی ہے اور دوسری جانب مضحکہ خیز طریقے پر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ جے این یو میں سنجیدگی کے ساتھ سیکھنا سکھانا نہیں ہوتا ہے۔
جے این یو کی وجہ سے حکمران طبقے کا تلملاتے رہنا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ شاید یونیورسٹی کچھ اچھا کام کرتی ہے۔جے این یو پر مسلسل گزشتہ چار سال سے ہوتے آرہے حملوں،جو اب انتہائی وحشیانہ ہوچکے ہیں، اور موجودہ وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کی مدت کار اتفاقی معلوم ہوتی ہے۔یونیورسٹی میں معمول کی تعلیمی سرگرمیاں گذشتہ 70دنوں سے معطل ہیں اور وائس چانسلر کی طرف سے ابھی تک جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔حالانکہ دسمبر میں معاملہ کے حل کا امکان نظر آرہے تھے جب اعلی تعلیم کے سکریٹری آر سبرمنیم نے کوشش کی تھی، جو خود جے این کے طلباء رہے چکے ہیں۔لیکن جیسے ہی انہوں نے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی انہیں اچانک تبدیل کردیا گیا۔
جے این یو کے وائس چانسلر کی پوری مدت کار میں ایسا لگتا رہا کہ جیسے انہیں اخلاقیات کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔کیمپس میں تشدد کے جاری رہتے ہوئے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ کیا معتبریت میں گراوٹ کی اس سے پست بھی کوئی سطح ہوسکتی ہے۔کیمپس میں تشدد ہونے کے دو دن بعد تک ان کی خاموشی پر شدید تنقید ہوئی ہے۔دیپیکا پدوکون کے جے این یو دورے پر وائس چانسلر کے عظیم شخصیات والی بات پر کم از کم اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اس بات سے ان کے ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ منکشف ہوتا ہے۔ایسے میں ان سے اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
جے این یو کے موجودہ وائس چانسلر کم از کم اپنے ناقدین کے نزدیک،یونیورسٹی کو چلانے میں نہیں بلکہ اسے زمین بوس کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔حالانکہ انکے بعض حامی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ جے این یو کی صفائی کرنے کے کام میں لگے ہیں لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ یہ دعویٰ سچا کیسے ہوسکتا ہے کہ جب انکی نگرانی میں ہورہے اساتذہ کی بھرتی عمل کو لیکر میڈیا میں چونکا دینے والی خبریں گشت میں ہیں۔وائس چانسلر کا سب سے بدترین اقدام یہ ہے کہ یونیورسٹی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے امتحان میں بیٹھنے جارہے طلباء کو ای میل کرکے سوالنامے بھیجنے کی تجویز دی ہے۔انکے مطابق طلباء کو ای میل کرکے سوالنامے بھیجے جائیں اور ان سے ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعہ ہی جوابی پرچے وصول کئے جائیں۔شکر ہے کہ اساتذہ کی اکثریت نے اس مضحکہ خیز اقدام کی مزاحمت کی۔
مختصر انداز میں یہ کہ ٹیلی ویژن اینکر ارنب گوسوامی کی جانب سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی اصطلاح پھیلائی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے جے این یو کے خلاف جاری مہم کو ہوا مل رہی ہے۔وائس چانسلر نے کبھی بھی یونیورسٹی کو بدنام اور بے اعتبار کرنے کیلئے چلائی جارہی اس بے بنیاد مہم کو ختم کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔کونسے وائس چانسلر ہونگے جو ایسا کرینگے.