نئی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون پر ہونے والے تشدد پر تین امریکی قانون سازوں نے سخت تنقید کی۔ امریکہ کے مین اسٹریم میڈیا نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اختتامی دورے کے ساتھ ساتھ تشدد کی بھی نمایاں طور پر رپورٹنگ کی۔
گذشتہ دو دنوں میں جاری تشدد کے دوران 13 افراد کی ہلاکت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی کانگریس وومن پرملا جئے پال نے کہا کہ بھارت میں مذہبی عدم رواداری میں اضافہ خوفناک ہے۔
اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ جمہوریتوں کو تفریق اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرنا چاہئے یا ان قوانین کو فروغ نہیں دینا چاہئے جو مذہبی آزادی کو مجروح کریں ، انہوں نے مزید کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ نے پچھلے سال شہریت ترمیمی قانون منظور کیا تھا جس کے جواب میں پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پرمیلا جیاپال نے گذشتہ سال ایک کانگریس کی قرارداد پیش کی تھی جس میں بھارت سے جموں و کشمیر میں مواصلات پر پابندیوں کو ختم کرنے اور تمام باشندوں کو مذہبی آزادی کے تحفظ کی درخواست کی گئی تھی۔
کانگریس کے ایک اور رکن ایلن لوونتھال نے بھی کہا کہ تشدد اخلاقی رہنمائی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت میں انسانی حقوق کو لاحق خطرات کے پیش نظر اظہار خیال کرنا چاہئے۔
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سنیٹر الیزبتھ وارنر نے بھی تشدد پر کہا کہ بھارت جیسے جمہوری ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا ضروری ہے لیکن ہمیں اپنے اقدار کے بارے میں سچائی کے ساتھ بولنے کے قابل ہونا چاہئے بشمول مذہبی آزٓدی اور اظہار خیال کی آزادی۔ اور پر امن احتجاج پر تشدد کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے۔
کانگریس وومن رشیدہ طالب نے ٹویٹ کیا کہ اس ہفتہ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا مگر اصل کہانی اس وقت دہلی میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ تشدد کی ہونی چاہئے۔ ہم پورے بھارت میں مخالف مسلم لہر پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ دہلی تشدد کو مین اسٹریم میڈیا میں نمایاں کیا گیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے مابین بڑھتے ہوئے تنازعات کے جواب میں مہینوں احتجاج کے بعد تناؤ سنگین ہوتا جارہا ہے۔