ETV Bharat / bharat

جوہری توانائی :ترقی یا تباہی - پرامن جوہری توانائی

بھارت برس 2030 تک 40 ہزار میگاواٹ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ ایٹمی توانائی کے لیے نئی تجاویز پیش کررہا ہے۔

جوہری توانائی ترقی یا تباہی
author img

By

Published : Sep 10, 2019, 11:35 AM IST

Updated : Sep 30, 2019, 2:39 AM IST

ماضی کے برعکس ، توانائی کے متبادل ذرائع ارزاں ہوگئے ہیں ، لیکن حکومت جوہری منصوبوں سے قوم کو تباہ کرنے پر آمدہ ہیں۔

جرمنی آئندہ تین برس کے درمیان اپنے جوہری پاور پلانٹ کو بتدریج بند کرنے کی تیاری میں ہے، جس کے لیے وہ جلد ہی 19 کروڑ کی آیوڈین کی گولیاں خریدے گا۔یہ ایٹمی حادثے کی صورت میں ان کا احتیاطی اقدام ہے۔

جوہری توانائی ترقی یا تباہی
جوہری توانائی ترقی یا تباہی

اگر ایٹمی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں بچوں اور نوجوانوں میں تھائیرائڈ کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔

جرمنی جیسا ملک یورینیم کی تباہیوں سے اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا۔ محکمہ جوہری توانائی نے ریاست تلنگانہ میں موجود نلامالا جنگل کے 21 ہزار ایکڑ میں 4 ہزار بورویل گڑھا کھودنے کی تجاویز پیش کی۔

محکمہ نے تلنگانہ کے محکمہ جنگلات سے امراباڑ ٹائیگر ریسرو سے یورینیم کی نمونے کو اکٹھا کرنے کی اجازت مانگی ہے، جو تقریبا 83 کلومیٹر تک احاطہ کیے ہوئے ہے۔ایٹمک منیرلس ڈائیریکٹوریٹ(اے ایم ڈی) اور عثمانیہ یونیورسٹی کی قیادت میں ہوئے مشترکہ مطالعے میں انکشاف ہوا کہ ریڈیوایکٹو معدنیات زیادہ تر تلنگانہ اور آندھراپردیش کےعلاقے میں پائے جاتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق گنٹور، کاڈپاہ، کریم نگر، نالگونڈا، محبوب نگر اور چیناکیسولہ گٹا میں یورینیم موجود ہے۔

اے ایم ڈی نے سنہ 2016 سےقبل تجویز پیش کی تھی کہ امراباڑ ٹائیگر ریزرو میں یورینیم کے معیاری ذخائر موجود ہیں۔

علاقے میں چار ہزار بورویل گڑھا کھودنے کا خیال حیاتیاتی تنوع یا بائیو ڈائیورسٹی کے زوال کا مترادف ہے۔حکومت جنگلاتی زندگی، 10 ہزار چینچو قبائلی زندگی، سری سائلم اور ناگ آرجن ساگر میں مرتب ہونے والے اثرات سے بے خبر ہے۔

ترقی یافتہ ممالک 'پرامن جوہری توانائی' کا ہدف لیتی ہیں لیکن سنہ2011 میں ہوئے فیکیوشیما تباہی کے بعد اب وہ اپنے وعدے سے انحراف کررہی ہے۔

اب وہ متبادل ذرائع جیسے فضائی اور شمسی توانائی کی تلاش میں ہے۔ایسے وقت میں جب توانائی کے متبادل ذرائع کے اخراجات آسمان چھورہے تھے، وہیں ہندوستان کا مقصد سنہ 2020 تک 20 ہزار میگاواٹ حاصل کرنا تھا۔

لیکن ہم اب تک صرف 7 میگاواٹ حاصل کرسکے ہیں۔اب ہندوستان برس 2030 تک 40 ہزار میگاواٹ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ ایٹمی توانائی کے لیے نئی تجاویز پیش کررہا ہے۔ماضی کے برعکس، توانائی کے متبادل ذرائع ارزاں ہوگئے ہیں، لیکن حکومت جوہری منصوبوں سے قوم کو تباہ کرنے پر آمدہ ہیں۔

تیرہ برس قبل ضلع کاڈپاہ میں یورینیم پلانٹ کے خلاف احتجاج کو خاموش کردیا گیا۔ اس کے اطراف میں موجود علاقے ابھی تک زیر زمین زہریلے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

سپریم کورٹ نے یورینیم پروسیسنگ اور اس کے افزودگی سے متعلق ایک قانون بنایا ہے جس میں اس معاملے سے متعلق عوام کی رائے شماری کو شامل کیا جائے۔ لیکن حکومت نے آندھر پردیش کے کووادا، مہاراشٹر کے جیتاپور، مغربی بنگال کے ہری پور، تمل ناڈو کے کوڈنکولم، ہریانہ کے گورکھپور، گجرات کے میٹھی ویری میں نئے جوہری پلانٹ کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ عوام نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپنی آوازیں بھی بلند کی ہیں۔

بھارت کے ریاست جھارکھنڈ کے جادو گوڈا میں یورینیم سے سب سے زیادہ تباہیاں رونما ہوئی۔ جاپان جو سسنہ 1945 میں ایٹمی حملے کا شکار ہوا اور جسے سنہ 2011 میں ہوئی جوہری تباہی کا سامنا کرنا پڑا،وہ اب بھی 14 ہزار ٹن کے جوہری ضائع کو ختم کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔

گرین پس نے واضح کیا ہے کہ جوہری فضلہ سے موثر طریقے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور اس سے ہونے والی تباہی کے نتائج بلا شبہ خطرناک ہوں گے۔

پوری دنیا میں فضائی توانائی کی پیداوار میں 17 فیصد اور شمسی توانائی کی پیداوار میں 35فیصد کا اضافہ ہوا ہے، لیکن ایٹمی توانائی کی پیداوار میں محض ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

وہیں ایٹمی توانائی کی قیمت 20 سے 32 روپے ہوتی ہے، متبادل کےطور پر اس کا احترام کرنا مہلک ہے۔یورینم نکالنے کے ابتدائی مراحل تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ٹملا پلے میں ہوئے حادثے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورینیم پروسیسنگ اور اس کے افزودگی کے عمل تباہ کن ہے۔ترقی کے نام پر تباہی کیا یہی ہماری حکومت چاہتی ہے۔

ماضی کے برعکس ، توانائی کے متبادل ذرائع ارزاں ہوگئے ہیں ، لیکن حکومت جوہری منصوبوں سے قوم کو تباہ کرنے پر آمدہ ہیں۔

جرمنی آئندہ تین برس کے درمیان اپنے جوہری پاور پلانٹ کو بتدریج بند کرنے کی تیاری میں ہے، جس کے لیے وہ جلد ہی 19 کروڑ کی آیوڈین کی گولیاں خریدے گا۔یہ ایٹمی حادثے کی صورت میں ان کا احتیاطی اقدام ہے۔

جوہری توانائی ترقی یا تباہی
جوہری توانائی ترقی یا تباہی

اگر ایٹمی حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں بچوں اور نوجوانوں میں تھائیرائڈ کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔

جرمنی جیسا ملک یورینیم کی تباہیوں سے اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا۔ محکمہ جوہری توانائی نے ریاست تلنگانہ میں موجود نلامالا جنگل کے 21 ہزار ایکڑ میں 4 ہزار بورویل گڑھا کھودنے کی تجاویز پیش کی۔

محکمہ نے تلنگانہ کے محکمہ جنگلات سے امراباڑ ٹائیگر ریسرو سے یورینیم کی نمونے کو اکٹھا کرنے کی اجازت مانگی ہے، جو تقریبا 83 کلومیٹر تک احاطہ کیے ہوئے ہے۔ایٹمک منیرلس ڈائیریکٹوریٹ(اے ایم ڈی) اور عثمانیہ یونیورسٹی کی قیادت میں ہوئے مشترکہ مطالعے میں انکشاف ہوا کہ ریڈیوایکٹو معدنیات زیادہ تر تلنگانہ اور آندھراپردیش کےعلاقے میں پائے جاتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق گنٹور، کاڈپاہ، کریم نگر، نالگونڈا، محبوب نگر اور چیناکیسولہ گٹا میں یورینیم موجود ہے۔

اے ایم ڈی نے سنہ 2016 سےقبل تجویز پیش کی تھی کہ امراباڑ ٹائیگر ریزرو میں یورینیم کے معیاری ذخائر موجود ہیں۔

علاقے میں چار ہزار بورویل گڑھا کھودنے کا خیال حیاتیاتی تنوع یا بائیو ڈائیورسٹی کے زوال کا مترادف ہے۔حکومت جنگلاتی زندگی، 10 ہزار چینچو قبائلی زندگی، سری سائلم اور ناگ آرجن ساگر میں مرتب ہونے والے اثرات سے بے خبر ہے۔

ترقی یافتہ ممالک 'پرامن جوہری توانائی' کا ہدف لیتی ہیں لیکن سنہ2011 میں ہوئے فیکیوشیما تباہی کے بعد اب وہ اپنے وعدے سے انحراف کررہی ہے۔

اب وہ متبادل ذرائع جیسے فضائی اور شمسی توانائی کی تلاش میں ہے۔ایسے وقت میں جب توانائی کے متبادل ذرائع کے اخراجات آسمان چھورہے تھے، وہیں ہندوستان کا مقصد سنہ 2020 تک 20 ہزار میگاواٹ حاصل کرنا تھا۔

لیکن ہم اب تک صرف 7 میگاواٹ حاصل کرسکے ہیں۔اب ہندوستان برس 2030 تک 40 ہزار میگاواٹ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ ایٹمی توانائی کے لیے نئی تجاویز پیش کررہا ہے۔ماضی کے برعکس، توانائی کے متبادل ذرائع ارزاں ہوگئے ہیں، لیکن حکومت جوہری منصوبوں سے قوم کو تباہ کرنے پر آمدہ ہیں۔

تیرہ برس قبل ضلع کاڈپاہ میں یورینیم پلانٹ کے خلاف احتجاج کو خاموش کردیا گیا۔ اس کے اطراف میں موجود علاقے ابھی تک زیر زمین زہریلے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

سپریم کورٹ نے یورینیم پروسیسنگ اور اس کے افزودگی سے متعلق ایک قانون بنایا ہے جس میں اس معاملے سے متعلق عوام کی رائے شماری کو شامل کیا جائے۔ لیکن حکومت نے آندھر پردیش کے کووادا، مہاراشٹر کے جیتاپور، مغربی بنگال کے ہری پور، تمل ناڈو کے کوڈنکولم، ہریانہ کے گورکھپور، گجرات کے میٹھی ویری میں نئے جوہری پلانٹ کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ عوام نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپنی آوازیں بھی بلند کی ہیں۔

بھارت کے ریاست جھارکھنڈ کے جادو گوڈا میں یورینیم سے سب سے زیادہ تباہیاں رونما ہوئی۔ جاپان جو سسنہ 1945 میں ایٹمی حملے کا شکار ہوا اور جسے سنہ 2011 میں ہوئی جوہری تباہی کا سامنا کرنا پڑا،وہ اب بھی 14 ہزار ٹن کے جوہری ضائع کو ختم کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔

گرین پس نے واضح کیا ہے کہ جوہری فضلہ سے موثر طریقے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور اس سے ہونے والی تباہی کے نتائج بلا شبہ خطرناک ہوں گے۔

پوری دنیا میں فضائی توانائی کی پیداوار میں 17 فیصد اور شمسی توانائی کی پیداوار میں 35فیصد کا اضافہ ہوا ہے، لیکن ایٹمی توانائی کی پیداوار میں محض ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

وہیں ایٹمی توانائی کی قیمت 20 سے 32 روپے ہوتی ہے، متبادل کےطور پر اس کا احترام کرنا مہلک ہے۔یورینم نکالنے کے ابتدائی مراحل تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ٹملا پلے میں ہوئے حادثے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورینیم پروسیسنگ اور اس کے افزودگی کے عمل تباہ کن ہے۔ترقی کے نام پر تباہی کیا یہی ہماری حکومت چاہتی ہے۔

Intro:Body:

vfsdfcsd vxcsdfvsd



Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 2:39 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.