انھوں نے استدلال کیا ہے کہ سبھی مذاہب کے طریقہ ہائے عبادت الگ الگ ہوتے ہیں۔ جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے تو مسجد میں نماز اجتماعی طور سے ادا کی جاتی ہے، یہ کوئی انفرادی عمل نہیں ہے اور نہ ہی مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک جماعت میں پانچ لوگوں کی قید لگانا نہ صرف یہ کہ مشکل پیدا کرنے والا عمل ہے بلکہ سرکار کی طرف سے ان لاک- 2کے تحت دیگر شعبۂ حیات میں دی گئی رعایتوں کے بھی منافی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسجدوں کے ذمہ داروں کا یہ احساس ہے کہ مسجد کو لے کر جوں کی توں حالت برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جب شاپنگ مالس، بازار یہاں تک کہ سرکاری دفاتر اور ٹرانسپورٹ میں افراد کی کوئی قید نہیں ہے تو عبادت خانے میں اس طرح کی قید لگانے کا کیا جواز ہے؟
مساجد میں ہر طرح کی طبی ہدایات کی پابندی کی جارہی ہے۔سوشل ڈسٹنسنگ کی شرائط کا بھی لحاظ کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ نماز کے وقت ایک شخص پوری طرح سے پاک صاف ہوتا ہے اور اپنے ہاتھ، پیر کو بھی دھوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں سرکار کے اس فیصلے کو جمعیۃ علماء ہند غلط اور غیر مناسب تصور کرتی ہے اور حکومت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور مسجد میں سوشل ڈسٹنسنگ کی شرط کے ساتھ بلا تعین نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ سرکار کا یہ موجودہ فیصلہ بہر صورت نامنظور اور ناقابل عمل ہے۔