ETV Bharat / bharat

'سماعت ٹالنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست'

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ قانون کے ڈین اور پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے 'سی اے اے'، 'این آر سی' اور 'این پی آر' کے خلاف دائرعرضیوں پر سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے بعد اسے چار ہفتوں تک ٹالے جانے کے عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے، اس سلسلے میں انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت بھی کی۔

شکیل احمد صمدانی، ڈین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
شکیل احمد صمدانی، ڈین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
author img

By

Published : Jan 24, 2020, 1:03 PM IST

Updated : Feb 18, 2020, 5:37 AM IST

پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں بتایا کہ سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے بعد اسے چار ہفتوں تک ٹال دیا ہے جو کہ ایک قانونی طریقہ ہے ان کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں تقریبا 144 سے زائد عرضیا آچکی ہیں، لیکن سپریم کورٹ نے اپنی پہلی سماعت میں حکومت سے جواب طلب کیا تھا'۔

شکیل احمد نے کہا کہ 'عدالت نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا'، 'ان کا کہنا تھا کہ 144 عرضیا پہلے سے ہی داخل ہیں لہٰذا کورٹ نے اب مزید اور درخواست لینے سے انکار کر دیا ہے، کورٹ نے کہا ہے کہ اگر اور مزید عرضیاں لی جاتی ہیں تو پہلے ہی والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ سبھی درخواست کا جواب دینا اور پڑھنا اس میں وقت لگتا ہے سب کا ایک طریقہ دیا ہوا ہے'۔

'اس طریقے کے حساب سے ان کو ( مرکزی حکومت)کہا گیا ہے کہ آپ چار ہفتوں میں جواب دیجیے، چار ہفتے کے بعد ہوسکتا ہے اس کیس کو آئینی بینچ کو بھیجا جائے اور اگر آئینی بینچ کو بھیجا گیا تو اس میں کافی وقت لگے گا کیوں کہ یہ ایک آئینی معاملہ ہے۔

سماعت ٹالنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست: پروفیسر شکیل احمد

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'شہریت ترمیمی قانون میں جو چھہ کمیونٹیز کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے، جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں اور ساتویں کمیونٹی یعنی مسلمانوں کو آپ تسلیم نہیں کر رہے ہیں تو یہ آرٹیکل 14 کے خلاف ہے، 'میں یہ سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے جو یہ کیا ہے قانون کے مطابق کیا ہے، نذیر صاحب بھی ہیں اس کے جج'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'سپریم کورٹ کے جج یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے تو پورے عمل کی پیروی کریں گے، اب اس میں مہینے بھی لگ سکتے ہیں سال بھی اور سالوں بھی لگ سکتے ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہیں ہوں کہ کورٹ اس پر روک لگا دیتا، ظاہر ہے کہ جج کو آپ گائیڈ تو نہیں کر سکتے جج جو بہتر سمجھے گا وہی کرے گا'۔

پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں بتایا کہ سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے بعد اسے چار ہفتوں تک ٹال دیا ہے جو کہ ایک قانونی طریقہ ہے ان کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ میں تقریبا 144 سے زائد عرضیا آچکی ہیں، لیکن سپریم کورٹ نے اپنی پہلی سماعت میں حکومت سے جواب طلب کیا تھا'۔

شکیل احمد نے کہا کہ 'عدالت نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا'، 'ان کا کہنا تھا کہ 144 عرضیا پہلے سے ہی داخل ہیں لہٰذا کورٹ نے اب مزید اور درخواست لینے سے انکار کر دیا ہے، کورٹ نے کہا ہے کہ اگر اور مزید عرضیاں لی جاتی ہیں تو پہلے ہی والی عرضیوں پر سماعت نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ سبھی درخواست کا جواب دینا اور پڑھنا اس میں وقت لگتا ہے سب کا ایک طریقہ دیا ہوا ہے'۔

'اس طریقے کے حساب سے ان کو ( مرکزی حکومت)کہا گیا ہے کہ آپ چار ہفتوں میں جواب دیجیے، چار ہفتے کے بعد ہوسکتا ہے اس کیس کو آئینی بینچ کو بھیجا جائے اور اگر آئینی بینچ کو بھیجا گیا تو اس میں کافی وقت لگے گا کیوں کہ یہ ایک آئینی معاملہ ہے۔

سماعت ٹالنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست: پروفیسر شکیل احمد

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'شہریت ترمیمی قانون میں جو چھہ کمیونٹیز کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے، جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں اور ساتویں کمیونٹی یعنی مسلمانوں کو آپ تسلیم نہیں کر رہے ہیں تو یہ آرٹیکل 14 کے خلاف ہے، 'میں یہ سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے جو یہ کیا ہے قانون کے مطابق کیا ہے، نذیر صاحب بھی ہیں اس کے جج'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'سپریم کورٹ کے جج یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے تو پورے عمل کی پیروی کریں گے، اب اس میں مہینے بھی لگ سکتے ہیں سال بھی اور سالوں بھی لگ سکتے ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہیں ہوں کہ کورٹ اس پر روک لگا دیتا، ظاہر ہے کہ جج کو آپ گائیڈ تو نہیں کر سکتے جج جو بہتر سمجھے گا وہی کرے گا'۔

Intro:سپریم کورٹ کے سی اے اے, این آر سی اور این پی ار کے خلاف دائر عرضیوں کی سماعت چار ہفتے تک ٹالنے اور مرکزی حکومت کو چار ہفتے کا وقت دینے پر اے ایم یو کے پروفیسر شکیل احمد صمدانی، ڈین قانون فیکلٹی سے خاص گفتگو۔


Body:پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے خاص گفتگو میں بتایا کل پہلی سنوائی ہوئی تھی اور پہلی سنوائی اور پچھلی اس میں تقریبا ساٹھ سے زیادہ اور عرضیا اگئ ہیں۔ اس وقت 144 سے زیادہ عرضیا آچکی ہیں تو سپریم کورٹ نے اس سے پہلے حکومت کے پاس بھیج دیا تھا کہ آپ جواب دیجیے۔

اس دوران اور آگئی تو ظاہر ہے کہ چاہے نچلی عدالت ہو یا ہائی کورٹ ہو چاہے سپریم کورٹ ہو ایک طریقہ ہوتا ہے تو انھوں نے ساری چیزوں کو بھیج دیا آپ جواب دیجئے ظاہر ہے کہ اگر 144 عرضیا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہہ دیا اور عرضی نہیں لینگے اور اگر لیتے رہیں گے تو پہلے ہی سنوائی نہیں ہوئی، عرضیوں کا جواب دینا اور پڑھنا اس میں وقت لگتا ہے سب کا ایک طریقہ دیا ہوا ہے۔

اس طریقے کے حساب سے ان کو کہا گیا ہے کہ آپ چار ہفتوں میں جواب دیجیے۔ چار ہفتے کے بعد ہوسکتا ہے اس کو
کانسٹیٹیوشنل بینچ میں بھیجے اور اگر کانسٹیٹیوشنل بینچ میں بھیجے گی تو اس میں بہت وقت لگے گا۔ کیوں کہ یہ ایک آئینی معاملہ ہے۔ اس میں ایک بات یہ ہے کہ آرٹیکل 14 سبھی کو برابری کا حق دیتا ہے جو چھہ کمیونٹیز کو تو آپ تسلیم کر رہے ہیں اگر وہ باہر سے آئی ہیں، ساتویں کمیونٹی کو یعنی مسلمانوں کو آپ تسلیم نہیں کر رہے ہیں تو یہ آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ہے، میں یہ سمجھتا ہوں جو یہ کیا ہے قانون کے مطابق کیا ہے، نذیر صاحب بھی ہیں اس کے جج۔

سپریم کورٹ کے جج کوئی معمولی بات نہیں ہے تو پورے عمل کی پیروی کریں گے۔ اب اس میں مہینے بھی لگ سکتے ہیں سال بھی اور سالوں بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہو کورٹ اس پر روک لگا دیتا اور کہتا اس کو کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جج کو آپ گائیڈ تو نہیں کر سکتے جج جو بہتر سمجھے گا وہی کرے گا۔



Conclusion:پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے کہا جو سپریم کورٹ نے سی اے اے، این آئی سی اور این پی آر کے خلاف ڈائر عرضیوں کی سماعت چار ہفتے تک ٹالنے اور مرکزی حکومت کو چار ہفتے کا وقت دینے کا فیصلہ کانونی فیصلہ ہے۔



ا۔ بائٹ۔۔۔۔ شکیل احمد صمدانی۔۔۔۔۔۔ ڈین۔۔۔۔۔ قانون فیکلٹی۔۔۔۔۔۔ اے ایم یو۔





Suhail Ahmad
7206466
9760108621
Last Updated : Feb 18, 2020, 5:37 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.