ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور تاریخی اعتبار سے ملک بھر میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس شہر کو 'شیراز ہند' بھی کہا جاتا ہے، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب پورے ملک میں مشہور ہے۔ یہاں کے چند تاریخی و قدیمی عمارتیں اور کھنڈرات میں تبدیل شدہ مقامات آج بھی دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور ماضی کی حسین داستان پڑھنے و سننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
انہیں قدیم عمارتوں میں شامل ایک مقبرہ شیر زماں خاں بھی ہے، یہ مقبرہ محلہ تارہ پور تکیہ میں دریائے گومتی کے ساحل پر واقع ہے۔موجودہ تمام مقبروں میں اس کی حالت بہتر ہے اس کے نقش و نگار، پھول پتیاں، فن پارے قابلِ دید و لائق تعریف ہیں۔ مقبرہ میں شیر زماں خاں، ان کے بھائی صاحب زماں خاں کی قبر کے علاؤہ متعدد قبریں ہیں مگر تختی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نشاندھی کرپانا کافی مشکل ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ شیر زماں خاں افغان قوم سے تھے اور نواب بنگش فرخ آبادی کے قرابت داروں میں سے تھے۔ بزمانہ حکومت فرخ سیر جونپور کے حاکم بنا کر بھیجے گئے تھے یہاں آنے کے بعد انہوں نے محلہ کٹگھرا جونپور میں سکونت اختیار کی اور ایک بازار آباد کیا جو اب تک نئی گنج کے نام سے آباد ہے۔
شیر زماں خاں ایک بہادر، باہمت، اور جری شخص تھے اکثر شیر کا شکار تلوار سے کیا کرتے تھے ایک مرتبہ چنار کے پہاڑوں پر شکار کی غرض سے گئے تھے سامنے سے ایک شیر کا جوڑا دکھائی دیا ان کے ساتھی تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے مگر شیر زماں خاں نے تن تنہا مقابلہ کرکے دونوں جوڑوں کو تہ تیغ کردیا۔اس وقت سے ان کا نام زماں خاں سے شیر زماں خاں مشہور ہو گیا۔ آخری عمر میں محلہ کٹگھرا میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔
معروف مؤرخ ایس ایم معصوم نے بتایا کہ شیر زماں خاں کا مقبرہ بہتر حالت میں ہے۔ شیر زماں نواب فرخ آبادی کے تختہ داروں میں سے تھے تنہا شیر کا شکار کرنے کی وجہ سےان کا نام شیر زماں خاں مشہور ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ' جونپور تاریخی عمارتوں کی حفاظت و مرمت کے تعلق سے ناکام ثابت ہوا ہے یہ مقبرہ اچھی حالت میں تو ہے مگر آس پاس صاف صفائی نہیں ہے، اگر صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی جائے تو سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں مقبرہ کے ارد گرد نئی عمارتوں کے تعمیر ہونے کے سبب مقبرہ تک جانے کے لئے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے۔ مقبرہ کے اردگرد کافی گندگی رہتی ہے، صحیح طریقے سے اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث احاطہ میں موجود قبروں پر جانور بول و براز کر دیتے ہیں جس سے قبروں کی بے حرمتی ہورہی ہے۔
مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: گلبرگہ شہر کو مقبول بنانے والے بہمنی دور کے ہفت گنبد
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت و انتظامیہ بقیہ قدیم و تاریخی عمارتوں کی حفاظت و مرمت کی جانب خصوصی توجہ کرے تو اس شہر کی ترقی بذریعہ سیاحت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔