ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد دنیا میں متعدد تبدیلیاں ہوں گی - دنیا بدل جائے گی

مہلک وبائی مرض کورونا پوری دنیا کو اپنی زد میں لے چکا ہے، لیکن ایک دن اس کا خاتمہ ہوگا، اور دنیا میں متعدد تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد دنیا میں متعدد تبدیلیاں ہوں گی
کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد دنیا میں متعدد تبدیلیاں ہوں گی
author img

By

Published : Apr 6, 2020, 1:48 PM IST

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی دردناک موت کے ساتھ ساتھ، سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر بھی ان گنت خطرات لاحق ہیں، جن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور آنے والے وقت میں ان سے ہونے والی تبدیلیوں سے دنیا کو ایک سمت ملے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر جاری لاک ڈاون سے کچھ معیشتیں مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گی، مالیاتی منڈی پہلے والی حالت میں کبھی بھی نہیں لوٹ پائے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس نقل وحرکت کو روکنے سے کچھ حکومتوں کو خودمختار بالادستی قائم کرنے میں مدد ملے گی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر شہری آزادیاں کمزورہوں گی۔

بہت سے لوگوں نے پہلے ہی عالمی سطح کی تنظیم جیسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کی اس بے مثال صحت کے بحران میں ہم آہنگی کی کمی کو لے کر سوال اٹھا چکے ہیں۔

بین الاقوامی امن ادارہ 'کارنیج انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' کے سینئر رکن آرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ یہ تبدیلیاں بہت وسیع اور غیر متوقع ہوں گی، انہوں نے کہا کہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ قومی معیشتیں اس طوفان کے سامنے کب تک کھڑی ہیں اور حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔

چین جہاں سے یہ وبائی مرض جنم لیتا ہے اور پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے آج وہی فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے اس وبا پر قابو پالیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتدائی دور میں ہی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور اب وہ ایک بڑے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔

مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارت میں متاثرہ افراد کے سرکاری اعداد و شمار بہت کم ہیں لیکن آنے والے اور خراب دنوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

جب ملر سے پوچھا گیا کہ کیا یہ قیادت یا قیادت کی عدم موجودگی دنیا بھر کے ممالک کو موقع فراہم کرے گی یا خطرہ؟

تو وہ کہتے ہیں کہ امیر ممالک بحران کے وقت مزدوروں کو معاوضہ دے کر اور معاشی سرگرمیاں بحال کرکے معیشت کو راستے پر رکھ سکتے ہیں، لیکن غریب ممالک کے لوگوں کو اتنا تحفظ نہیں ملتا ہے اور ایسی صورتحال میں پسماندہ افراد کے سڑکوں پر آنے کا خطرہ ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے گیسٹ پروفیسر جوشوا جیجٹزر کہتے ہیں کہ 'ان ممالک میں تنازعات کا زیادہ امکان موجود ہے جہاں ملازمت پر لوگوں کو معاشرتی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا ہے، اس کا حکمرانی اور دوسروں پر امکانی اثر پڑے گا'۔

انہوں نے کہا کہ ' روس اور ترکی جہاں دو دہائیوں سے ایک مضبوط رہنما حکمرانی کر رہے ہیں انہیں امید ہے کہ وائرس اور کسی بھی سیاسی اثرات سے نمٹنے کے لیے ان کی تیاریاں کافی ہیں۔

حالانکہ اس وبائی بیماری کے بعد زیادہ تر لبرل جمہوری معاشروں نے شہری حقوق پر پابندی عائد کردی ہے اور غیر معمولی طریقے سے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔

دکار میں موجود ٹمبکٹو انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بیکری سامبے نے کہا 'ایک طویل عرصے سے لبرل ازم اور عالمگیریت پر تقریر کرنے والے تمام رئیسوں نے سب سے پہلے اپنی سرحدیں بند کردیں'۔

بھارت میں اشوکا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر پرتاپ بھانو مہتا نے کہا کہ کاروباری نظام میں تنازعہ کا خطرہ ہے۔

پیرس میں قائم ین الاقوامی اور اسٹریٹجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محقق بارتھلیمیب کورٹمونٹ نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو نظرانداز کردیا جائے گا'۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی دردناک موت کے ساتھ ساتھ، سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر بھی ان گنت خطرات لاحق ہیں، جن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور آنے والے وقت میں ان سے ہونے والی تبدیلیوں سے دنیا کو ایک سمت ملے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر جاری لاک ڈاون سے کچھ معیشتیں مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گی، مالیاتی منڈی پہلے والی حالت میں کبھی بھی نہیں لوٹ پائے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس نقل وحرکت کو روکنے سے کچھ حکومتوں کو خودمختار بالادستی قائم کرنے میں مدد ملے گی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر شہری آزادیاں کمزورہوں گی۔

بہت سے لوگوں نے پہلے ہی عالمی سطح کی تنظیم جیسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کی اس بے مثال صحت کے بحران میں ہم آہنگی کی کمی کو لے کر سوال اٹھا چکے ہیں۔

بین الاقوامی امن ادارہ 'کارنیج انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس' کے سینئر رکن آرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ یہ تبدیلیاں بہت وسیع اور غیر متوقع ہوں گی، انہوں نے کہا کہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ قومی معیشتیں اس طوفان کے سامنے کب تک کھڑی ہیں اور حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔

چین جہاں سے یہ وبائی مرض جنم لیتا ہے اور پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے آج وہی فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے اس وبا پر قابو پالیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتدائی دور میں ہی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور اب وہ ایک بڑے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔

مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارت میں متاثرہ افراد کے سرکاری اعداد و شمار بہت کم ہیں لیکن آنے والے اور خراب دنوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

جب ملر سے پوچھا گیا کہ کیا یہ قیادت یا قیادت کی عدم موجودگی دنیا بھر کے ممالک کو موقع فراہم کرے گی یا خطرہ؟

تو وہ کہتے ہیں کہ امیر ممالک بحران کے وقت مزدوروں کو معاوضہ دے کر اور معاشی سرگرمیاں بحال کرکے معیشت کو راستے پر رکھ سکتے ہیں، لیکن غریب ممالک کے لوگوں کو اتنا تحفظ نہیں ملتا ہے اور ایسی صورتحال میں پسماندہ افراد کے سڑکوں پر آنے کا خطرہ ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے گیسٹ پروفیسر جوشوا جیجٹزر کہتے ہیں کہ 'ان ممالک میں تنازعات کا زیادہ امکان موجود ہے جہاں ملازمت پر لوگوں کو معاشرتی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا ہے، اس کا حکمرانی اور دوسروں پر امکانی اثر پڑے گا'۔

انہوں نے کہا کہ ' روس اور ترکی جہاں دو دہائیوں سے ایک مضبوط رہنما حکمرانی کر رہے ہیں انہیں امید ہے کہ وائرس اور کسی بھی سیاسی اثرات سے نمٹنے کے لیے ان کی تیاریاں کافی ہیں۔

حالانکہ اس وبائی بیماری کے بعد زیادہ تر لبرل جمہوری معاشروں نے شہری حقوق پر پابندی عائد کردی ہے اور غیر معمولی طریقے سے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔

دکار میں موجود ٹمبکٹو انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بیکری سامبے نے کہا 'ایک طویل عرصے سے لبرل ازم اور عالمگیریت پر تقریر کرنے والے تمام رئیسوں نے سب سے پہلے اپنی سرحدیں بند کردیں'۔

بھارت میں اشوکا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر پرتاپ بھانو مہتا نے کہا کہ کاروباری نظام میں تنازعہ کا خطرہ ہے۔

پیرس میں قائم ین الاقوامی اور اسٹریٹجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محقق بارتھلیمیب کورٹمونٹ نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو نظرانداز کردیا جائے گا'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.