ETV Bharat / bharat

خصوصی پیشکش: راحت اندوری کے وہ اشعار جو زبان زد عام ہیں

طوفانوں سے آنکھ ملاو سیلابوں سے پیار کرو ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو پھولوں کی دوکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو عشق خطا ہے، تو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار کرو

sdf
sdf
author img

By

Published : Aug 11, 2020, 9:08 PM IST

اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری آج ریاست مدھیہ پردیش کے اپنے آبائی شہر اندور میں انتقال کر گئے۔ انہیں کورونا متاثر قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ اندور کے اربندو ہاسپٹل میں داخل کرائے گئے تھے اور آخر کار دل کا دورہ پڑنے کے سبب ان کا انتقال ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس موقع پر پیش ہیں، ان کے کچھ ایسے اشعار جو عوام میں بہت زیادہ پسند کیے گئے:

ویڈیو

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

۔۔۔۔۔

یہ وہ نظم تھی جس نے راحت اندوری کو ہر عام و خاص کی زبان پر لا دیا۔

راحت اندوری کے اشعار تغیل سے بالا تر ہوا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔

میرے حُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو

آسماں لائے ہو، لے آؤ زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل

آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

۔۔۔۔۔۔۔

ستارے نوچ کر لے جاوں گا

میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں

وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف

ابھی ماحول مر جانے کا نئیں

۔۔۔۔۔۔

مذکورہ بالا یہ اشعار ان کی موت کے بعد بہت درد انگیز محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی موت کا سبب کورونا وبا بن گئی اور وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے گئے۔

طوفانوں سے آنکھ ملاو سیلابوں سے پیار کرو

ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو

پھولوں کی دوکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو

عشق خطا ہے، تو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگ کے پاس کبھی موم کو لا کر دیکھوں

ہو اجازت تو تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں

دل کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے

سوچتا ہوں تیری تصویر لگا کر رکھ دوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روز تاروں کی نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے، اندھیرے میں نکل پڑتا ہے۔

اُس کی یاد آئی ہے، سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ہم دونوں کو فرصت ہے چلو عشق کریں

عشق دونوں کی ضرورت ہے، چلو عشق کریں

اس میں نقصان کا خطرہ ہی نہیں رہتا ہے

یہ منافعے کی تجارت ہے، چلو عشق کریں

۔۔۔۔۔۔۔

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہے جنتر منتر سب

چاقو واقو چھریاں وریاں خنجر ونجر سب

جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں

چادر وادر تکیہ وکیہ بستر وستر سب

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے

پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے زیور ویور سب

آخر میں کس دن ڈوبوں گا، فکریں کرتے ہیں

دریا وریا کشتی وشتی لنگر ونگر سب

۔۔۔۔۔۔۔

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے

میری زبان سے پروردگار بولتا ہے

۔۔۔۔۔۔

یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

۔۔۔۔۔۔۔

کس نے دستک دی، یہ دل پر کون ہے

آپ تو اندر ہیں، باہر کون ہے

۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے

چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے

۔۔۔۔۔۔

موسموں کا خیال رکھا کرو

کچھ لہو میں ابال رکھا کرو

لاکھ سورج سے دوستانہ ہو

چند جگنو بھی پال رکھا کرو

اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری آج ریاست مدھیہ پردیش کے اپنے آبائی شہر اندور میں انتقال کر گئے۔ انہیں کورونا متاثر قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ اندور کے اربندو ہاسپٹل میں داخل کرائے گئے تھے اور آخر کار دل کا دورہ پڑنے کے سبب ان کا انتقال ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس موقع پر پیش ہیں، ان کے کچھ ایسے اشعار جو عوام میں بہت زیادہ پسند کیے گئے:

ویڈیو

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

۔۔۔۔۔

یہ وہ نظم تھی جس نے راحت اندوری کو ہر عام و خاص کی زبان پر لا دیا۔

راحت اندوری کے اشعار تغیل سے بالا تر ہوا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔

میرے حُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو

آسماں لائے ہو، لے آؤ زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل

آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

۔۔۔۔۔۔۔

ستارے نوچ کر لے جاوں گا

میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئیں

وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف

ابھی ماحول مر جانے کا نئیں

۔۔۔۔۔۔

مذکورہ بالا یہ اشعار ان کی موت کے بعد بہت درد انگیز محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی موت کا سبب کورونا وبا بن گئی اور وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ چلے گئے۔

طوفانوں سے آنکھ ملاو سیلابوں سے پیار کرو

ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو

پھولوں کی دوکانیں کھولو خوشبو کا بیوپار کرو

عشق خطا ہے، تو یہ خطا ایک بار نہیں سو بار کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگ کے پاس کبھی موم کو لا کر دیکھوں

ہو اجازت تو تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں

دل کا مندر بڑا ویران نظر آتا ہے

سوچتا ہوں تیری تصویر لگا کر رکھ دوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روز تاروں کی نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے، اندھیرے میں نکل پڑتا ہے۔

اُس کی یاد آئی ہے، سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ہم دونوں کو فرصت ہے چلو عشق کریں

عشق دونوں کی ضرورت ہے، چلو عشق کریں

اس میں نقصان کا خطرہ ہی نہیں رہتا ہے

یہ منافعے کی تجارت ہے، چلو عشق کریں

۔۔۔۔۔۔۔

اس کی کتھئی آنکھوں میں ہے جنتر منتر سب

چاقو واقو چھریاں وریاں خنجر ونجر سب

جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں

چادر وادر تکیہ وکیہ بستر وستر سب

مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے

پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے زیور ویور سب

آخر میں کس دن ڈوبوں گا، فکریں کرتے ہیں

دریا وریا کشتی وشتی لنگر ونگر سب

۔۔۔۔۔۔۔

میرا ضمیر میرا اعتبار بولتا ہے

میری زبان سے پروردگار بولتا ہے

۔۔۔۔۔۔

یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

۔۔۔۔۔۔۔

کس نے دستک دی، یہ دل پر کون ہے

آپ تو اندر ہیں، باہر کون ہے

۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

۔۔۔۔۔۔۔۔

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے

چاند کو چھت پہ بلا لوں گا اشارہ کر کے

۔۔۔۔۔۔

موسموں کا خیال رکھا کرو

کچھ لہو میں ابال رکھا کرو

لاکھ سورج سے دوستانہ ہو

چند جگنو بھی پال رکھا کرو

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.