سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس ڈی وائی چندرچور ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی آئینی بینچ کے سامنے دستاویزات کا حوالہ پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بابری مسجد متنازع جگہ پر موجود تھی۔
ظفر یاب جیلانی نے پی ڈبلیو ڈی کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1934 کے فرقہ وارانہ فسادات میں مبینہ طور پر مسجد کے ایک حصے کو نقصان پہنچا گیا تھا اور پی ڈبلیو ڈی نے اس کی مرمت کروائی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سنہ 1934 سے سنہ 1949 تک متنازع جگہ پر باقاعدہ طور پر نماز بھی ادا کی جاتی تھی، اس کے حق میں بھی انہوں نے دستاویزات بھی پیش کئے۔
واضح ر ہے کہ سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے دوپہر کے کھانے کے وقفے تک جرح سے رخصت لے لی تھی، اس کی وجہ سے ظفر یاب جیلانی نے بورڈ کی جانب سے محاذ سنبھالا تھا۔