صرف چھ ہفتے پہلے تک جنوبی کوریا نے کووِڈ-19 کے پہلے چند معاملات بڑی مستعدی سے سنبھالے لیکن ’’مریض (نمبر) 31‘‘ کے ساتھ ہی گویا سب کچھ بدل گیا۔ایک خاتون ،جنہیں کیس 31 یا مریض 31 کا نام دیا گیا ہے، اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرجا گھروں، اسپتالوں اور عوامی مقامات پر حاضری دیکر ہزاروں معصوم جنوب کوریائی باشندوں میں وائرس کو پھیلایا ۔حکومت نے غیر علامتی وائرس برداروں کا ادراک کرکے فوری کارروائی کی۔اسی طرح بھارت میں بھی 13 سے 15 مارچ کے درمیان نظام الدین مرکز کی وجہ سے انفکشن کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ۔ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے ہزاروں لوگوں نے نئی دہلی کے نظام الدین علاقہ میں منعقدہ ایک بھاری مذہبی اجتماع میں شرکت کی تھی اور شرکاٗ میں سینکڑوں غیر ملکی بھی شامل تھے۔
نظام الدین میں منعقدہ تبلیغی جماعت کے اس اجتماع میں شریک ہوئے انڈونیشیائی باشندوں کے ایک گروہ میں کورونا وائرس ہونے کی تصدیق ہونے کے فوراََ بعد تلنگانہ کی سرکار نے مرکزی سرکار کو خبردار کیا یہاں تک کہ ان حکومتوں کو پتہ چلا کہ تلنگانہ اور دیگر کئی ریاستوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے مرنے والے 6 افراد اور حیدرآباد میں دیگر کئی کورونا مریضوں کا تعلق اسی اجتماع سے تھا۔وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں کئی وزرائے اعلیٰ نے گذشتہ روز تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شامل رہنے والوں کا سُراغ لگانے کی تصدیق کی۔
جب تک اس اجتماع کے شرکاٗ کو پتہ نہیں لگتا ہم ملک میں کورونا مریضوں کی اصل تعداد کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ان لوگوں کی طبی جانچ کرنا ،متاثرین اور انکے روابط کو قرنطینہ میں رکھنا وغیرہ بڑا مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کیجریوال سرکار نے کووِڈ-19 کو 12 مارچ کو صحتِ عامہ کی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے دہلی میں بڑے اجتماعات اور بھیڑ جمع ہونے پر پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو دہلی سرکار نے 200 سے زیادہ لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگادی تھی اور پھر ایک ہی دن بعد اس تعداد کو 50 تک گھٹا دیا گیا۔ تبلیغی جماعت نے اس صورتحال میں کس طرح ہزاروں لوگوں کا اجتماع کرایا اور اس اجتماع کی سازش کس نے کی تھی۔ بعض ایسے سوالات ہیں جنکا جواب آنا باقی ہے۔دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کے حکم پر تبلیغی جماعت کے مولانا محمد سعاد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد جماعت کے سربراہ روپوش ہوگئے ہیں، جنہوں نے لوگوں کی جان کی قیمت پر یہ مذہبی اجتماع منعقد کرایا تھا۔
اگرچہ دہلی سرکار احکامات و ہدایات کے اجراٗ پر مطمعن ہے ،بیرونی ممالک باالخصوص کورونا وائرس سے متاثر ملیشیاٗ اور انڈونیشیاٗ سے لوٹنے والے اپنے اسفار چھُپا رہے ہیں۔دہلی سرکار نے بین الاقوامی سیاحوں کیلئے 3 مارچ سے ویزا کا خصوصی نظام متعارف کرایا۔ اگر سرکاری حکام نے دہلی آنے والے دو غیر ملکی مسافروں کے کورونا پازیٹیو پائے جانے اور ایک کے کوئمبٹور میں کورونا کی وجہ سے ہلاک ہونے کے وقت ہی چوکسی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج ہم ایک بڑے خطرہ خطرے کو ٹال سکتے تھے۔ کم از کم نظام الدین واقعہ کے بعد تو سرکاروں کو بھیڑ جمع ہونے کے حوالے سے بڑا چوکس ہونا چاہیئے۔ ملک گیر تالہ بندی کے ختم ہونے سے قبل کہیں پر بھی بھیڑ جمع ہونے کا مزید کوئی واقعہ پیش نہیں آنا چاہیئے۔ مہاجر مزدوروں کی ہجرت صرف اُترپردیش اور بہار کیلئے ہی نہیں بلکہ سارے ملک کیلئے ایک خطرہ ہے۔
جس رفتار سے ساری دنیا میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ عالمی سطح پر متاثرہ مریضوں کی تعداد 9.5 لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد 50000 تک پہنچ چکی ہے۔ امریکہ جس نے پہلے پہل کورونا وائرس کو نظرانداز کیا تھا، اب اس وبا کے ختم ہوجانے تک 2.5 لاکھ ہلاکتوں کی پیشگوئی کررہا ہے۔ اٹلی میں پہلے 100 مریضوں کے بعد یہ تعداد چند ہفتوں میں ہی بڑی تیزی کے ساتھ لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔
حالانکہ بھارت میں اسکا اثر کم ہے لیکن نظام الدین جیسے واقعات وبا کی آگ میں تیل کا کام کرسکتے ہیں۔تبلیغی جماعت کے واقعہ کے بعد سرکار نے ملک میں وائرس کے 20 ’’ہاٹ اسپاٹس‘‘ کی نشاندہی کی ہے۔ دہلی، مہاراشٹرا،کیرالہ اور راجستھان جیسی چھ ریاستیں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ معاملات سے دیکھ رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم نے ریاستوں سے تالہ بندی کے بعد اخراج کی مناسب حکمتِ عملی تجویز کرنے کیلئے کہا ہے ۔اس حکمتِ عملی کے ایک حصہ کے بطور ممکن ہے کہ تالہ بندی کے دورانیہ میں کچھ ہفتوں کا اضافہ کیا جائے۔ اس دوران متاثرہ لوگوں کی نشاندہی کرکے انہیں قرنطینہ میں رکھنے وغیرہ کا ایک فول پروف نظام نافذ کئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے گھبراہٹ خود کووِڈ-19 سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔اس خفیہ دشمن کے ساتھ لڑائی کے کسی بھی مرحلے پر سرکار کی ہلکی سی لاپرواہی بھی پورے ملک کو خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔