اسلامی ماہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو برصغیر کے مختلف ممالک میں تعزیہ داری کا رواج عام ہے۔ دہلی کے رہنے والے سرفراز نامی شخص گزشتہ 40 برسوں سے اس قدیم روایت کا حصہ ہیں۔
وہ خود تعزیہ بنا کر محرم کے جلوس نکالتے آ رہے ہیں، لیکن رواں برس گذشتہ برسوں سے قدرے مختلف ہے۔
سرفراز بتاتے ہیں کہ انہیں تعزیہ داری کا شوق سنہ 1980 میں ہوا جو اب تک جاری ہے، حالانکہ ان کے آباؤ اجداد تعزیہ داری نہیں کیا کرتے تھے۔
سرفراز کی سرپرستی میں تعزیہ بنانے والے انصب احمد تقریبا 20 برسوں سے اپنے نام کا تعزیہ نکال رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا یہ عمل حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے دیرینہ محبت کا ثبوت ہے۔
انصب نے بتایا کہ وہ 3 ماہ قبل سے ہی تعزیہ داری کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور روزانہ رات میں تعزیہ کی تزئین کاری کا کام کرتے ہیں اور محرم الحرام کے پہلے ہفتے میں تعزیہ مکمل ہو جاتا ہے تاہم رواں برس کورونا وائرس کی وجہ سے انہیں اجازت نہیں ملی اس لیے وہ مایوس ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ بھارت میں تعزیہ داری کی تاریخ 13 ویں صدی سے ملتی ہے۔ سب سے پہلی بار تیمور لنگ کے لیے ان کے وزراء نے تعزیہ داری کی۔ بعد ازاں تعزیہ داری کی یہ رسم پورے برصغیر میں رائج ہو گئی اور بھارت سے تیمور کے چلے جانے کے بعد بھی یہاں تعزیہ داری کی روایت جاری رہی۔
تیمور کے بعد مغلوں نے بھی اس روایت کو جاری رکھا مغل شہنشاہ ہمایوں نے بیرم خان سے زمرد کا بنا ہوا تعزیہ منگوایا تھا۔