سنیچر کی شام تک امریکہ میں کورونا وائرس کے مصدقہ متاثرین کی تعداد 7 لاکھ 34 ہزار تک پہنچ گئی، اس وقت امریکہ میں اس وائرس کے متاثرین اور اس کی وجہ سے ہوئی اموات کی تعداد بقیہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، یہاں اب تک تقریباً 38 ہزار 800 لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔
صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہی یہاں 1900 اموات ہوچکی ہیں، یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ پورے ملک میں فی الوقت لاک ڈاون جاری ہے۔
امریکہ کے کئی کم متاثرہ علاقوں میں اس لاک ڈاون کے خلاف لوگ، جو اس وبا کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہورہے ہیں، کا احتجاج بھی دیکھنے کو ملا ہے۔
اس بحران میں انڈین امریکن طبقہ اور تارکین وطن کے نیٹ ورکس نے امریکہ میں پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں، بالخصوص دو لاکھ بھارتی طلبا کی مدد کررہے ہیں۔ وہ اُن تک امداد پہنچانے میں بھارتی سفارتخانے اور قونصل خانوں کو اپنا تعاون دے رہے ہیں۔
امریکہ میں مقیم کئی بھارتی شہریوں نے ان پھنسے ہوئے ہم وطنوں کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے اپنے ہوٹلوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اُنہیں خوراک اور ادویات وغیرہ بھی پہنچائی جا رہی ہے۔
سینیئر صحافی سمیتا شرما نے اس صورت حال پر امریکہ میں تعینات بھارتی سفیر ترنجیت سنگھ ساندھو کے ساتھ ایک بات چیت کی ہے۔
سفارتکار ساندھو نے بتایا کہ بھارت اور امریکہ طبی محاذ پر اشتراک کے ساتھ کام کررہے ہیں جبکہ بھارت نے امریکہ کو کووِڈ 19 کے خلاف لڑنے کے لیے انسداد ملیریا کی دوائی (ہائیڈروکسی کلوروکوئن) بھی فراہم کی ہے۔
بھارت نے یہ دوا امریکہ جرمنی، افغانستان سمیت تقریباً پچاس ممالک کو تجارتی اور امدادی بنیادوں پر فراہم کی ہے۔
سفارتکار ساندھو نے یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ میں مقیم بھارتی شہریوں کو درپیش ویزے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے متعلقہ امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کی جارہی ہے۔ پیش ہیں اس خصوصی انٹرویو کے اقتباسات:
سوال: اس وقت امریکہ میں کیا صورتحال ہے اور یہاں کتنی تعداد میں بھارتی شہری موجود ہیں؟ لاک ڈاون کے دوران سفارتخانہ ان شہریوں کی کس طرح مدد کررہا ہے؟
جواب: جہاں تک امریکہ کی موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، اس ملک کی تمام پچاس ریاستوں میں اس وقت کل 6 لاکھ 32 ہزار شہری کورونا وائرس سے متاثر ہیں، ان میں سے 33 فیصد صرف نیویارک میں ہیں۔
اس وقت امریکا کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی لاک ڈاون میں ہے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اب جہاں تک امریکہ میں مقیم بھارتی شہریوں کا تعلق ہے، اُن میں دو لاکھ طلبا، ایک لاکھ پچیس ہزار ایچ آئی بی ویزا ہولڈرز اور چھ لاکھ گرین کارڈ ہولڈرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مختصرمدت کے لیے یا سیاحت کی غرض سے گئے تھے۔ ہمارے سفارتخانے اور قونصل خانے پہلے دن سے ہی بھارتی شہریوں کی مدد کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس وقت ہم اپنے ملک کے شہریوں کی اکثریت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
سوال: آپ امریکہ میں پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں بالخصوص طلبا کے ساتھ کیسے رابطے میں ہیں؟
جواب: جہاں تک بھارتی طلبا اور دیگر شہریوں کا تعلق ہے، ہم ان کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹز جیسے کہ ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ساتھ ساتھ ویب سائٹ کی وساطت سے رابطہ بنائے رکھے ہیں۔
گیارہ مارچ کو جب عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے کورونا وائرس کو ایک وبا قرار دیا، ہم نے امریکہ بھر میں اپنے تمام پانچ قونصل خانوں اور واشنگٹن میں ہمارے سفارتخانے میں رات دن جاری رہنے والی ہیلپ لائن شروع کردی۔ طلبا کے لیے ہم نے خصوصی سپورٹ لائن قائم کی جو صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتی ہے۔ اس کی بدولت ہم پچاس ہزار طلبا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
اس کے علاوہ ہم نے گیارہ اپریل کو انسٹاگرام پر ایک لائیو انٹریکشن بھی کیا تھا، جس کے ذریعے ہم نے 25 ہزار طلبا کے ساتھ رابطہ کیا۔ ہم نے یہاں بیس مفصل ایڈوائزریز بھی جاری کردی ہیں۔ یہ رہنما قوائد ہم نے طلبا کی مدد کے لیے جاری کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہاں مقیم دیگر بھارتی شہریوں کے ساتھ بھی رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس طرح سے ہم امریکہ میں مقیم بیشتر بھارتی شہریوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
سوال: امریکہ میں پھنسے ہوئے بعض طلباء انہیں گھر پہنچانے کے لیے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ آپ ان طلباء کی جانب سے ایمرجنسی اپیل کا کس طرح سے جواب اور انہیں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اس بحران میں آپ بھارتی شہریوں کو کس طرح کا سپورٹ فراہم کررہے ہیں؟
جواب: جہاں تک طلبا کا تعلق ہے، ہم ان کی براہ راست مدد کررہے ہیں۔ انہیں طبی سہولیات پہنچا رہے ہیں۔ جب بھی کسی ایمرجنسی کی اطلاع ہم تک پہنچتی ہے، ہم کمیونٹی ڈاکٹرز کی وساطت سے متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کولوراڈا میں ایک طالب علم اور اس کے کنبے کی مدد کے لیے ہم نے مقامی حکام اور ڈاکٹروں سے رابطہ کیا اور انہیں طبی خدمات پہنچائیں۔
اسی طرح جب طلبا کو رہائش کا مسئلہ درپیش آیا تو ہم نے کئی یونیورسٹیز کے حکام کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں ان طلبا کی رہائشی سہولیات کو برقرار رکھنے یعنی انہیں کمرے فراہم کرنے کے لیے راضی کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے انڈین امریکن ہوٹل مالکان سے رابطہ کیا اور انہوں نے بھارتی شہریوں بالخصوص طلبا کو رہنے کے لیے جگہ فراہم کی۔ بعض لوگوں نے ہم سے خوراک فراہم کرنے کی گزارش کی اور ہم نے بھارتی شہریوں کی کمیونٹی کی مدد سے انہیں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرائیں۔ تمام قونصل خانے اورسفارتخانے یہ کام کررہے ہیں۔ جبکہ انڈین امریکن کمیونٹی کے کئی اراکین بھی اس ضمن میں ہماری مدد کرنے کے لیے سامنے آگئے ہیں۔
سوال: امریکہ میں موجود بعض بھارتی شہریوں کو ویزے سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں۔ اس طرح کے مسائل کا سامنا خاص طور سے ایچ آئی بی ویزا ہولڈرز کو ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: ویزے سے متعلق مسائل کے حوالے سے ہمیں بہت ساری درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ خاص طور سے ایچ آئی بی، جے ون اور ایف ون ویزوں سے متعلق مسائل سامنے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم امریکی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ اس وقت ایک پریشان کن صورتحال ہے لیکن جوں جوں حالات ٹھیک ہوتے جائیں گے ان مسائل کو حل کیا جائے گا۔
سوال: اسٹریٹجیک پارٹنرز کی حیثیت سے بھارت اور امریکہ اس وقت کووڈ 19 سے لڑنے میں کس طرح سے ایک دوسرے کو تعاون دے رہے ہیں؟
جواب: جہا ں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے، اس ضمن میں امریکہ اور بھارت کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اشتراک کرنے کے وسیع مواقع ہیں۔ دونوں ممالک بشمول پرائیوٹ اور پبلک سیکٹرز کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وبا کی وجہ سے دونوں ممالک کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
دونوں ملکوں کی فارما سیوٹیکل کمپنیاں بھی اس وقت ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں ہیں۔ امریکہ میں انسداد ملیریا کی دوا (ہائڈروکسی کلوروکوئن) کی بہت طلب ہے۔ بھارت ان ممالک میں شامل ہے، جو اس دوا کو بڑے پیمانے پر تیار کررہا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے اس دوا کی سپلائی چین کو قائم رکھنے میں اپنا کردار نبھایا ہے۔
ایک قابل بھروسہ پارٹنر کی حیثیت سے بھارت، امریکہ کو اپنا تعاون دیتا رہے گا۔ اس کے علاوہ کئی بھارتی کمپنیاں ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹرز اور پی پی ای کٹس فراہم کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں