سشما سوراج کے انتقال کی خبر سنتے ہی ملک بھر میں غم کی فضا سی چھا گئی۔ جس نے بھی ان کے انتقال کی خبر سنی ایک پل کے لیے انہیں یہ یقین نہیں ہوا کہ اچانک ملک نے ایک عظیم خاتون رہنما کو کھو دیا۔
سشما سوارج کا شمار پارٹی کے قدآور رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
ان کے والد کا نام ہردیو شرما اور والدہ کا نام لکشمی دیوی تھا۔ ان کے والد آر ایس ایس کے رکن تھے جس کی وجہ سے بچپن سے ہی انہیں سیاست میں دلچسپی تھی۔
سشما سوراج نے پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے جے پرکاش نارائن کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایمرجنسی کی سختی سے مخالفت کرنے کے بعد وہ سیاست سے منسلک ہو گئیں۔
سشما سوراج بھارتی پارلیمنٹ کی پہلی اور ایک ایسی خاتون رکن تھیں، جنہیں ' آؤٹ اسٹینڈنگ پارلیمینٹیریئن ایوارڈ' سے نوازا گیا۔
سشما سوارج کے نام کئی کارنامے درج ہیں، جسے ملک یاد کرے گا۔1977 میں جب وہ 25 برس کی تھیں، تب وہ بھارت کی سب سے کم عمر کابینی وزیر منتخب ہوئیں۔
27 برس کی عمر میں 1979 میں وہ ہریانہ میں جنتا پارٹی کی ریاستی صدر منتخب ہوئیں۔
اندرا گاندھی کے بعد سشما سوراج دوسری ایسی خاتون تھیں، جنہوں نے وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالا۔
گذشتہ چار دہائیوں میں انہوں نے 11 انتخابات میں حصہ لیا جس میں سے تین بار انہوں نے اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ سات بار رکن پارلیمان منتخب ہوئیں۔
ہریانہ کی ہونہار طالبہ نے 25 برس کی عمر میں ہریانہ حکومت میں وزیر بن کر ایک تاریخ رقم کی لیکن یہ محض ایک شروعات تھی۔
سشما سوراج پہلی بار 1977 میں امبالہ سیٹ سے رکن اسمبلی بنی تھیں۔ چودھری دیوی لال کی حکومت میں ریاستی وزیر بھی رہ چکی تھیں۔ وہ سب سے کم عمر میں کابینی وزیر بھی منتخب ہوئیں۔ 1990 میں وہپ راجیہ سبھا کے لیے بھی منتخب ہوئی تھیں۔
سشما سوراج نے 1996 میں جنوبی دہلی پارلیمانی سیٹ سے پہلا الیکشن جیتا تھا اور 13 روز کی اٹل بہاری واجپئی حکومت میں اور اس کے بعد کی حکومت میں وزیر اطلاعات اور نشریات کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیں۔