گزشتہ روز ان درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیا اور کہا کہ 'اگر اس تنازع کا حل نہیں نکلا تو ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے کہا کہ اس تنازع کا جلد از جلد حل نکالیں وگرنہ ہم ان قوانین پر پابندی لگا دیں گے'۔
سپریم کورٹ نے احتجاج کا حل نہیں نکالنے پر شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مرکز سے سوال پوچھا کہ کسانوں سے کیا بات چیت ہو رہی ہے؟ اس دوران عدالت نے مرکز سے سوال کیا کہ کیا زرعی قوانین پر عمل آوری کو کچھ عرصے کے لیے روکا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے مرکز کی مودی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ جو ان تینوں نئے زرعی قوانین پر غور کرے گی۔ اور اس تعلق سے کسان رہنماؤں سے بات چیت بھی کرے گی۔
سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے عدالت میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ فریقین کے مابین حال ہی میں بات چیت ہوئی ہے، اور یہ بات چیت مزید جاری رکھے جانے پر اتفاق ہوا ہے، تاہم چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت جس طرح معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے ہم خوش نہیں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ قانون پاس کرنے سے پہلے آپ نے کیا کیا؟ آخری سماعت میں بھی بات چیت کے بارے میں کہا گیا تھا، کیا ہو رہا ہے؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زرعی قوانین کی شکایات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی سفارش کی۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا حکومت کی استدعا نہیں چلے گی کہ اسے کسی اور حکومت نے شروع کیا تھا، آپ کس طرح حل کر رہے ہیں؟ حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 41 کسان تنظیمیں قانون واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں، قوانین واپس نہیں لیے جانے کی صورت میں تحریک جاری رکھنے کی بات سامنے آ رہی ہیں۔ آخر یہ کب تک چلے گا؟
چیف جسٹس نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت کچھ نہیں کرتی ہے تو ہم ان قوانین پر پابندی لگادیں گے۔ سی جے آئی نے مزید کہا کہ اگر ضروری ہوا تو عدالت خود ان قوانین پر پابندی عائد کردے گی، سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسان تحریک کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ پرامن طریقے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔