سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ اسمبلی اسپیکر کانگریس اور جنتا دل ( سکیولر) کے باغی اراکین اسمبلی کے استعفے پر فیصلہ کریں گے اور اس کے لیے کوئی وقت کی میعاد مقرر نہیں کی جا سکتی۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ نے کانگریس اور جنتا دل (ایس) کے باغی ممبران اسمبلی کی درخواستوں پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ ریاستی اسمبلی کے تمام 15 باغی ممبران اسمبلی کو اگلے حکم تک ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کے لئے پابند نہیں کیا جانا چاہئے"۔
جسٹس رنجن گوگوئی نے بینچ کی طرف سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کو اختیار ہے کہ وہ اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لیں یا اس سے باہر رہیں۔
ساتھ ہی عدالت عظمی نے کہا کہ اسمبلی اسپیکر کے آر رمیش کمار کو متعینہ مدت کے اندر باغی اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں اسپیکر کا کردار اور ذمہ داری پر کئی اہم سوال اٹھے ہیں، جن پر بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ فی الحال آئینی توازن قائم کرنے کے لئے وہ اپنا عبوری حکم سنا رہے ہیں۔
جسٹس رنجن گگوئی نے باغی اراکین اسمبلی کے استعفے پر اسمبلی اسپیکرکے فیصلے سے عدالت کو مطلع کرنے کی ہدایت بھی دی۔
اس معاملے میں آئینی مسائل کے عدالتی جائزہ کے سوال پر عدالت نے کہا کہ "اس موقع پر آئینی توازن برقرار رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں فی الحال عبوری حکم کے ذریعے آئینی توازن بنانا ہوگا۔ اس کے تحت اسمبلی اسپیکر 15 باغی اراکین اسمبلی کے استعفے پر اپنے حساب سے مناسب وقت پر فیصلہ کریں گے"۔
جسٹس گوگوئی نے کہا کہ "ہمارا خیال ہے کہ موجودہ صورت میں فیصلہ کرتے وقت اسمبلی اسپیکر کی مراعات میں عدالت کی کسی ہدایت یا تبصرے سے خلل نہيں ڈالا جانا چاہئے" ۔
واضح رہے کہ کرناٹک کے باغی ممبران اسمبلی نے اسمبلی کے اسپیکرکی طرف سے ان کا استعفی منظور نہیں کئے جانے کو چیلنج کیا تھا۔ درخواست گزار باغی ممبران اسمبلی کی جانب سے سینئر وکیل مکل روہتگی نے کل آئین کے آرٹیکل 190 کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دی تھی کہ اگر کوئی رکن اسمبلی استعفی دیتا ہے تو اسے منظور کیا جانا چاہئے، یہاں تک کہ اگر اس کے خلاف نااہل ٹھہرائے جانے کا عمل کیوں نہ شروع کیا گیاہو۔
روہتگی نے استعفی دینے والے ممبران اسمبلی کی تعداد کم کرنے کے بعد حکومت کے عدم اعتماد تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ "عدالت میں اپیل دائر کرنے والے ممبران اسمبلی کی تعداد کم کر دی جائے تو ریاستی حکومت کا گر نا طے ہے۔ اسی لئے اسپیکر جان بوجھ کر استعفی قبول نہیں کر رہے ہیں۔