انٹرکانٹی نینٹل ایسوسیئشن لائرس نامی تنظیم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے ایودھیا تنازع کی سماعت رد کرنے اور مقدمے کے عرضی گزار کے خلاف ایف آئی آر در ج کرنے کی اپیل کی تھی۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے عرضی کے دوران کہا کہ 'یہ کس طرح کی عرضی ہے۔ اپنی عرضیوں پر نظر ڈالیے'
گوگوئی اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے عرضی خارج کر دی ہے۔
واضح رہے کہ بابری مسجد۔رام مندر اراضی تنازع کی سماعت سی جے آئی گوگوئی کی صدارت والی آئینی بنچ کر رہی ہے۔ بنچ کے دیگر ارکان، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النذیر ہیں۔
اس تنازعہ کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تمام کوششوں کے رائگاں ہو جانے کے بعد سپریم کورٹ میں گذشتہ 6اگست سے روز مرہ کی بنیاد پر اس معاملے کی سماعت کی جارہی ہے۔ 6 اگست سے سماعت شروع ہونے کے بعد پہلے ہندوفریق کو سنا گیا اور اس کے بعد مسلم فریق بنچ کے سامنے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔
اس مقدمے کی گذشتہ سماعت میں مسلم فریقوں کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے گذشتہ روز کی اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ سنہ 1734ء سے نرموہی اکھاڑہ متنازع اراضی پر قابض ہونے کا دعوی کر رہاہ ہے تاہم الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد انہوں نے اندرونی صحن پر بھی دعویٰ شروع کردیا جس پر ان کا کبھی قبضہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ سنہ 1734ء سے اپنی موجودگی کا دعویٰ کررہا ہے اسلیے میں کہہ سکتاہوں کہ 1855ء سے رام چبوترہ باہری کے حصے میں ہے جسے رام جنم استھل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، ڈاکٹردھون نے نرموہی اکھاڑہ کے گواہوں کے درج بیانات پر جرح کرتے ہوئے مہنت بھاسکر داس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ مورتیوں کو متنازع ڈھانچہ میں رکھا گیا تھا۔
ڈاکٹردھون نے بعدازاں مسٹرکے کے نائراور گرودت سنگھ ڈی ایم وسٹی مجسٹریٹ کی 1949کی تصاویر کوبھی عدالت کو دکھایا، آج ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت میں نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے سوٹ نمبر 3 میں دیئے گواہوں کے بیانات پڑھ کرعدالت میں سنایا۔
انہوں نے اس میں موجود تضاد کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کرایا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ کے گواہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ متنازع اراضی کے باہری حصے پر نرموہی اکھاڑہ کا قبضہ تھا اور رام چبوترا باہری حصے میں تھا جسے رام کا جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔