امریکہ میں پیر کے روز ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے جن غیر ملکی طلبہ کے یونیورسٹی نے اس سمسٹر مکمل طور پر آن لائن کلاسز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان غیر ملکی طلبہ کو ملک چھوڑنے یا ملک سے در بدر ہونے کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس قدم سے ہزاروں بھارتی طلبا متاثر ہوں گے۔
امریکی وزارت خارجہ ان طلباء کے لیے ویزر جاری نہیں کرے گا، جن کے اسکول آئندہ سمسٹر میں مکمل طور پر آن لائن کلاسز منعقد کروا رہے ہیں۔امریکی محکمہ کسٹم اور بارڈر پروڈیکشن بھی ان طلباء کو امریکہ میں پناہ دینے کی اجازت نہیں دے گا۔ساتھ میں ٹرمپ انتظامیہ نے اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزنٹر پروگرام (ایس ای وی آئی پی) کے لیے ایف 1 ویزا میں عارضی ترمیم کا بھی اعلان کیا ہے۔
امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم غیر ملکی طلباء ایف 1 ویزا کی بدولت یہاں آتے ہیں۔وہیں امریکہ میں پیشہ ورانہ یا دیگر تسلیم شدہ غیر تعلیمی اداروں میں تکنیکی پروگراموں(زبان کی تربیت کے کورسز کے علاوہ) میں داخلہ لینے والے طلباء ایم 1 ویزا پر امریکہ کا سفر طئے کرتے ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے تقریبا 2 لاکھ بھارتی طلبا پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔کیونکہ اگر امریکی یونیسورٹیاں ان طلباء کو کیمپس کورس کی سہولیات مہیا نہیں کراتی ہے تب ان طلبا کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
حالانکہ نیویارک کی اسٹونی برک یونیورسٹی کے اسکول آف جرنسلزم میں ڈیجیٹل اینوویشن کے وزٹنگ پروفیسر سری نواسن کو اس معاملے میں زیاد وضاحت کے لیے مفصل رہنماء اصولوں کا انتظار ہے۔لیکن انہیں لگتا ہے کہ اس انتشار کو جان بوجھ کر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ ٹرمپ حکومت کی قیادت میں اختیار کی گئی نسل پرستی امیگریشن پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔
سرینواسن نے اپنا موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کے ویزر جیسے ایچ 1بی اور ایل 1ویزا میں تبدیلیوں کے ذریعہ اپنے قدامت پنسد ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیویارک سے سینئر صحافی سمیتا شرما سے بات چیت کے دوران سری نواسن نے اس بات پر زور دیا کہ امیگریشن میں کی جانے والی تبدیلی بھارت امریکی براداری کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جنہیں 'ہوموجینس ووٹ بینک' کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔حالانکہ کئی لوگوں کو ماننا ہےکہ ٹرمپ ایک ایسے امیدوار ہے جن سے انہیں کوئی پریشانی یا نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔اسی سلسلے میں سمیتا شرما نے سرینوانسن سے بات چیت کی، پیش ہیں انٹرویو کے چند اقتباسات۔
سوال۔کیا امریکہ بھارت کے ایف 1 ویزا کو ختم کرسکتا ہے،یعنی اگر امریکہ میں موسم خزاں کے سمسٹر کے دوران امریکی یونیورسٹیاں مکمل طور پر آن لائن کلاسز منعقد کرواتی ہیں تو ایسے میں ان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بھارتی طلباء کو امریکہ چھوڑنا پڑے گا؟
جواب ۔یہ وقت ہنگامی صورتحال کا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ ایسا ہی رہا ہے۔انتشار کرنا ان کی بنیادی خصوصیات ہے۔غلط فہمیاں، غلط معلومات۔ ان ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں وہ ایک ہی وقت میں اپنے نسل پرستانہ اور دوسری پالیسیوں کو ایک ساتھ فعال طور پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم نے امریکہ کو صحت کے محاذ اور معاشی نیز نسلی ناانصافی کے محاذ پر ناکام ہوتے دیکھا ہے۔
ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امیگریش پر ابھی کام جاری ہے اور صدر ٹرمپ اور انکے انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والا یہ عمل سلسلہ وار طریقے سے ہمارے سامنے آئے گا، جو سب کو مزید پریشانی میں مبتلا کردے گا۔ہمیں امید ہے کہ ان سب کے بارے میں کچھ اور وضاحت پیش کی جائے گی۔
لیکن طلبا کے پاس اسکول چھوڑنے یا کسی دوسرے اسکول میں داخلہ لینے کی کوشش کرنے کا آپشن موجود رہے گا، جو ذاتی طور پر کلاسز منعقد کروائیں گے
یہاں کے اعلی انتظامیہ امیگریشن مخالف ہیں۔جو افراد یہاں آتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں وہ امیگریشن پالیسی کی بدولت ہی یہ سب حاصل کرپاتے ہیں، جو ساتھ میں طلبا کو یہاں رہنے، تعلیم حاصل اور اپنا اثر چھوڑنے کی چھوٹ دیتا ہے،جو صدر ٹرمپ کی مفاد میں نہیں ہے۔وہ آئی آئی ٹی سے تعلیم یافتہ لوگوں کو یہاں نہیں چاہتے ہیں، لحاظہ آئی آئی ٹی انجینئر اور اسی طرح بھارتی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے ذریعہ نافذ کردہ نسل پرست امیگریشن پالیسی میں انہیں چھوٹ دی گئی ہے۔انہیں لگتا ہے ٹرمپ انہیں اس ملک میں لانا چاہتے ہیں۔بلکہ ایسا نہیں ہے۔ٹرمپ بھارتی آئی آئی ٹی انجینئروں کے بجائے نارویجن ماہی گیروں کو زیادہ توجہ دیں گے۔
سوال۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ بین الاقوامی طلباء میں چینی اور بھارتیوں کی اکثریت ہے ایسے میں بین الاقوامی طلبا کی برادری میں کتینی اضطراب اور الجھن پائی جاتی ہے؟
جواب۔یہاں شدید گھبراہٹ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔یہاں یہ الجھن ہے کہ جو طلبا پہلے سے ہی یہاں زیرتعلیم ہیں ان کا کیا ہوگا اور جو طلبا کا داخلہ ہوگیا ہے ان میں یہ الجھن ہے کہ وہ کس طرح سے یہاں آنے کے لیے ویزا کیسے حاصل کریں کیونکہ ویزا دفتر نہیں کھولے گا۔اس لیے یہاں پہلے ہی کافی ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ہمٰیں بھی اس بارے میں کچھ جانکاری نہیں ہے۔جو طلبا مجھ سے رابطہ کرتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ پرسکون رہنے کی کوشش کریں اور اصل ہدایت نامہ کیا ہیں اس کو اچھے سے پڑھیں۔اگر یہ پالیسی نافذ ہوجاتی ہے تب ہم ایک بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔صرف بھارتیوں کو ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی یہ افراتفری کا ماحول پیدا کردے گا۔
سوال۔متعدد کالجوں نے پہلے ہی اپنے خزاں سمسٹر کے لیے داخلے مکمل کرلیے ہیں، ایسے میں طلبا دوسرے کالجوں میں ٹرانسفر کیسے لے سکتے ہیں؟اور متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ بھارت کے لیے بین الاقوامی پروازوں کو کب تک بحال کیا جائے گا تب ایسی صورتحال میں طلبا امریکہ سے بھارت کے لیے کیسے روانہ ہوں گے؟
جواب۔ہمیں اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے کہ ہم یہ سب کیسے کریں گے۔لیکن اس کا اعلان کرنا کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے بلکہ اسے سوچ سمجھ کر اور کسی مقصد کے تحت نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔اس انتظامیہ کے بجائے کس نے اس وبائی مرض کے دوران ڈبلیو ایچ او سے اپنے ہاتھ کھییچ لیے۔
سوال۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے قبل ایچ ون بی ، ایل ون ویزا کو سال کے آخر تک معطل کردیا تھا اور گرین کارڈ کے درخواست دہندگان کی قسمت کا بھی پتہ نہیں ہے۔کیا اس انتخابی سال میں کس گھریلو حلقے کی جانب زیادہ توجہ دی جارہی ہے
جواب۔100 فیصد یہ کیا جارہا ہے۔اس انتخابی حلقے کی 90 فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ ہیں جو ملک کی آبادی کا 40 فیصد ہے۔یہ لوگ زیادہ تر غیرملکیوں سے نفرت کرتے ہیں اور نسل پرست ہیں۔ٹرمپ نے اس ملک میں اقلیتوں اور تارکین وطن کو دشمن بنادیا ہے۔ٹیلی ویژن چینل میں ہردن اس کی طرف سے کھڑے ہوکر غلط اطلاعات مہیا کر ڈر کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے ایچ 1، ایل 1 پر جس طرح امیگریشن پالیسی نافذ کی ہے وہ تباہ کن ہے،ایک مخالف حلقہ ایسا ہے جو اس کے خلاف ہیں اور جو تارکین وطن کی قدر کو سمجھتے ہیں۔
سوال۔ہم نے دیکھا کہ ٹرمپ کے مخالف کھڑے ہوئے نمائندے جوئی بڈن نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ایچ 1 بی ویزا پر مثبت طریقے سے کام کریں گے۔گجرات اور ہٹسن میں منعقد کی گئی تقریب کے دوران مودی اور ٹرمپ کے تعلقات کے پیش نظر ہونے والی پیشرفت کو بھارتی امریکی برادری کس طرح دیکھ رہی ہے؟
جواب۔یہاں کوئی بھارتی طبقہ نہیں ہے یہاں سب بکھرئے ہوئے ہیں،یہاں کچھ لوگ ہیں جو ٹرمپ کو پسند کرتے ہیں۔جو ٹرمپ کے لیے پرجوش نظر آتے ہیں کیونکہ یہ وہ باتیں کہتا ہے جو لوگ سننا پسند کرتے ہیں اور کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس کے ٹیکس میں کٹوتی ان کے لیے اچھا ثابت ہوگا۔انہیں لگتا ہے کہ انہیں یہاں آنے، کامیاب ہونے اور رہنے کا موقع ملا۔لیکن آنے والی نسلیں یہاں نہیں آنا چاہے گی۔
بہاں کئی مضبوط ترقی پسند لوگ بھی موجود ہیں جو ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہیں۔کون ہے جو ان قواعد و ضوابط کے خلاف مقابلہ کر رہا ہے ہے۔یہاں کے کچھ بڑے سماجی کارکن کا نژاد بھارتی ہے۔یہ کوئی ایک طبقہ کا نہیں ہے اور یہاں بھارتی نژاد لوگوں کی ایک بڑی جماعت موجود ہے، جو ان سب سے الگ تھلگ ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ امریکی خبروں کی پیروی کریں اور ووٹ کریں۔لیکن یہ بات سارے لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
سوال۔ امریکہ نے باضابطہ طور پر ڈبلیو ایچ او سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے یہاں تک کہ دنیا کو وبائی مرض کا سامنا ہے۔
جواب۔یہ بہت ہی افسوسناک بات ہےلیکن انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔انہوں نے پہلے بھی ایسا کیا ہے اور وہ آگے بھی ایسا گرٰیں گے۔بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ صدر بننے کے بعد ٹرمپ شاید کچھ اچھے منصوبے لے کر آئیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ لیکن انہوں نے پہلے ہی دن سے ایسے منصوبے لائیں جس کی وجہ سے ہم یہاں موجود ہیں۔