بھوپال میں رہنے والی ثمر خان کو ہمیشہ سے ان خواتین کی فکر رہی ہے جن کا سماج میں کوئی نہیں۔ جن کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ چکا ہے یا پھر غریبی کے چلتے ان کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔
ایسے میں انہوں نے ایک ایسے گھر کا خواب سجایا۔ جہاں پر ان ضرورت مند خواتین کے رہنے کھانے کے نظم کے ساتھ ہی انہیں ایسا ہنر مل سکے کہ وہ سماج میں سر اٹھا کر جی سکیں۔
دھیرے دھیرے ثمر کان کی یہ سوچ حقیقت میں بدلنی شروع ہوئی، آشرم کی شروعات بھی ہوئی لیکن یہ آشرم صرف کسی ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والا نہ ہو اس کے لیے انھوں نے اس آشرم کا نام 'نربھیا' رکھا، جس کے معنی ہے کسی پر منحصر نہ رہنے والا۔
ثمر خان نے یہاں پر ان خواتین کے لیے نہ صرف ان کے آشیانے کا انتظام کیا بلکہ ان خواتین و لڑکیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے سلائی، کڑھائی، بنائی سکھا کر انہیں ہنر مند بناتی ہیں۔
ثمر خان نے جو سوچا تھا اب وہ بالکل سچ ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہاں رہنے والی خواتین اب ہنر مند بن کر سماج میں سر اٹھا کر جی رہی ہیں۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہاں رہنے والی لڑکیوں کو بیٹیاں سمجھنے والی ثمر خان رشتے تلاش کر ان کی شادیاں بھی کراتی ہیں۔