اردو شاعری کی روایت میں فیض کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ میر، غالب، اور اقبال کے بعد جس شاعر کا نام سب سے نمایاں ہے وہ فیض احمد فیض ہیں۔ فیض کو شعروشاعری کا شغف بچپن ہی سے تھا، انھوں نے شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔
اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی آج 36 ویں برسی ہے۔ فیض 13 فروری 1911 کو پاکستان کے سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ 20 نومبر 1984 کو لاہور میں انتقال ہوا۔
اردو زبان نے تین صدیوں میں چار بڑے شاعر پیدا کیے۔ اٹھارویں صدی میں میر تقی میر۔ انیسویں صدی میں مرزا غالب۔ بیسویں صدی کے علامہ اقبال اور چوتھے شاعر فیض احمد فیض ہیں۔
اقبال اور فیض ایسے شاعر ہیں جن کی پیدائش اور وفات ایک ہی شہر میں ہوئی۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ سوئی ہوئی قوم کو جگانے کا کام کیا۔ انھیں ترغیب دیتے رہے۔ فیض نے دار و رسن کا مزہ بھی چکھا۔ رومانوی اور انقلابی شاعری میں بہترین تصنیفات چھوڑیں۔
اردو شاعری کی روایت میں فیض کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ میر، غالب، اور اقبال کے بعد جس شاعر کا نام سب سے نمایاں ہے وہ فیض احمد فیض ہیں۔ فیض کو شعروشاعری کا شغف بچپن ہی سے تھا، انھوں نے شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔
تاہم شعراء کے کلام کا مطالعہ کرتے تھے۔ جن میں میر، غالب، داغ کے کلام کا مطالعہ کیا۔ فیض اپنے بچپن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔۔۔
"ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے، جنھیں 'بھائی صاحب' کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔
ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں۔ جیسے طلسم ہوش ربا، فسانہ آزاد، عبد الحلیم شرر کے ناول وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام۔ غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا۔ لیکن ان کا دل پہ اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دلچسپی ہونے لگی"۔
فیض کی زندگی کا کچھ حصہ جیل میں گزرا ہے۔ پہلی مرتبہ راول پنڈی سازش کیس میں 1951 میں پاکستان سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ وہ چار برس تک سرگودھا، منٹگمری، لاہور اور کراچی کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ سنہ 1955 میں جیل سے رہا ہوئے۔
فیض کے یہاں محبوب کا وہ روایتی تصور نہیں ملتا جو بیشتر شعرا کے یہاں ملتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ فیض کے نزدیک محبوب سے زیادہ نچلے طبقے کے مظلوم مزدور اور غریب افراد زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ ان کی مشہور نظم 'مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ' میں اس کا جابجا ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اس نظم میں مزید مذکورہ باتوں کا مفصل ذکر ہے۔
علی سردار جعفری کے قول کے مطابق فیض ایک نئے مدرسۂ شاعری کے بانی ہیں، ان کے یہاں 'جدید مغربیت اور قدیم مشرقیت کا حسین امتزاج ہے جس نے اردو شاعری کو دو آتشہ بنا دیا'۔
عمومی طور پر فیض کو انقلابی شاعر کی حیثیت سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں اور نظمیں بہت مشہور ہوئیں جن کے چند اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
نثار تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
فیض کے انہیں اشعار کا فیض آج بھی جاری ہے۔ جب جب حکومت وقت عوام کے حقوق اس کی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے، فیض کے یہ اشعار ہر با شعور انسان کی زبان پر ہوتے ہیں۔
فیض ترقی پسندوں کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہایت خلوص اور فنکاری کے ساتھ اپنے نظریات اور رجحانات کو شعری پیکر میں بخوبی ادا کیا۔
انہوں نے مزدور، محنت کش، کسان اور نچلے طبقات کے افراد کے دکھ درد کی سچی ترجمانی کی۔ فیض کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مروجہ شعری ڈھانچے سے فکرو خیال کی نئی عمارت کھڑی کی۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
فیض کے بارے میں بہتوں نے لکھا، اس ضمن میں معروف نقاد پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ 'فیض کی شاعری میں انگریزی ادب کے ایک خوشگوار انسان کے ذہن اور ایشیائی تہذیب کے قابل قدر عناصر کی ایک قوس قزح جلوہ گر ہے'۔
مجروح سلطان پوری کا کہنا ہے کہ 'فیض احمد فیض ترقی پسندوں کے میر تقی میر ہیں'۔
مزید پڑھیں:
مسجد نبوی ﷺ میں کورونا کے خاتمہ کے لیےخصوصی دعا
20 نومبر 1984 کو لاہور میں فیض اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کی تصانیف میں 'نقش فریادی' ، 'دست صبا' ، 'زنداں نامہ' ، 'دست تہہ سنگ' ، 'شام شہریاراں' ، 'متاع لوح و قلم' ، 'سروادیٔ سینا' ، 'مرے دل، مرے مسافر'۔ شامل ہیں۔
ان کا کلیات 'نسخہ ہائے وفا' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔