خزانہ و کاروباری امورکی وزیر نرملا سیتارمن نے اپنے تازہ بجٹ خطاب میں کہا کہ مرکزی حکومت نے بڑی حد تک پندرہویں مالی کمیشن کی سفارشات کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سفارشات کے خلاصہ کے اولین اشارے دسمبر2019 کے پہلے ہفتے میں سامنے آئے تھے اور جنوبی ریاستوں کو سال 2011 کی مردم شماری کے حوالے سے جو خدشات لاحق ہوئے تھے وہ بلا شبہ سچ ثابت ہوئے ہیں۔
پندرہویں مالی کمیشن کے چئیرمین این کے سنگھ کا کہنا ہے کہ کمیشن کا مقصد ترقی پسند ریاستوں کو مزید ترقی کرانا اور سُست ریاستوں کو قومی اوسط تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے لیکن حالیہ بجٹ میں رکھی گئی تجاویز نے جنوبی ریاستوں کو خسارے میں ڈال دیا ہے۔
پندرہویں مالی کمیشن کی جانب سے اختیار کردہ ٹیکس کی تقسیم کے نئے پیمانوں کی وجہ سے 20ریاستیں رقومات کا اضافی حصہ حاصل کرینگی جبکہ بقیہ 8ریاستوں کی رقومات میں کٹوتی ہوئی ہے۔
جہاں ان 20 خوش قسمت ریاستوں کی مالیات میں 33 ہزار کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے، وہیں 8 بدقسمت ریاستوں کو 18 ہزار 389 کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑے گا۔ تمل ناڈو خوش قسمت 20 ریاستوں میں سے ہے جبکہ بقیہ جنوبی ریاستیں مجموعی طور پر 16 ہزار 640 کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانے جارہی ہیں۔ اگر ایک مالی سال کیلئے خسارے کا تخمینہ اتنا زیادہ ہے تو پھر آئندہ پانچ سال کے خسارے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب این کے سنگھ کی قیادت والے مالی کمیشن نے چودھویں مالی کمیشن کے تجویز کردہ رقومات کے ریاستی حصہ میں کٹوتی کرکے اسے 42 سے41 فیصد کردیا ہے۔
مالی کمیشن کا کہنا ہے کہ چونکہ جموں کشمیر نے ریاست کا درجہ کھو دیا ہے اور یہ اب مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقوں میں تقسیم ہوگیا ہے لہٰذا اس کا ایک فیصد حصہ اس کی سکیورٹی پر لگایا جائے گا۔ اگر مالی بحران کا سامنا کرنے والی ریاستیں ترقیاتی اشاریہ سے پیچھے رہ جاتی ہیں تو اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جانا چاہیے۔
فروری 2015میں وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ انکا ایجنڈا ریاستوں کو خود کفیل بنانے کا ہے تاکہ وہ اپنی بہبودی کی اسکیمیں خود بنائیں اور انہیں نافذ کرسکیں۔این ڈی اے حکومت کے چودھویں مالی کمیشن کی سفارشات کی پابند ہونے سے متعلق وزیرِ اعظم کی جانب سے وزرائے اعلیٰ کو لکھا گیا خط پندرہویں مالی کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ہی بخارات بن کر اڑ گیا ہے۔
سال 1976 میں بنائے گئے ساتویں مالی کمیشن سے لیکر چودھویں مالی کمیشن تک ٹیکس کی تقسیم کیلئےسال 1971کی مردم شماری کو بنیاد بنایا جاتا رہا۔چودھویں مالی کمیشن کی جانب سے سال 1971کی مردم شماری کو 17.5اور سال 2011کی مردم شماری کو 10فیصد وزن دینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، تاہم پندرہویں کمیشن کی جانب سے سال 2011کی مردم شماری کو 15فیصد، آمدنی کے فرق کو 45فیصد، آبادی پر قابو پانے کے اقدامات کو12.5فیصد اور ٹیکس کی وصولی کے اقدامات کو2.5فیصد وزن دیکر رقومات کی تقسیم کا نظام بنانے سے کئی ریاستیں پیچھے رہ گئی ہیں۔
ریاستِ آندھراپردیش،جو ایک بڑے مالی بحران کا سامنا کررہی ہے، اس سال 1 ہزار 521 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانے جارہی ہے جبکہ تلنگانہ کو 24 سو کروڑ روپے کا خسارہ ہوگا۔ایسا لگتا ہے کہ مالی کمیشن نے انسدادِ آبادی کی موثر عمل آوری کیلئے رقومات میں ریاستوں کی حصہ داری کم کردی ہے۔چونکہ مرکزی حکومت ریاستوں کیلئے کارکردگی کے پیمانے مقرر کرکے اسی کے مطابق رقومات مختص کرنے پر غور کررہی ہے، جنوبی ریاستوں کیلئے اگلے پانچ سال میں مالی کمیشن کی سفارشات مزید بدتر ہوسکتی ہیں۔
حالانکہ مرکز نے پندرھویں مالی کمیشن کی سفارشات کے نفاذ کی پانچ سالہ مدت کیلئے 175لاکھ کروڑ کی کل مالیات کا تخمینہ لگایا تھا، موجودہ کسادبازاری نے معشیت کو چوٹ پہنچائی ہے۔این ڈی اے حکومت ریاستوں پر ٹیکس لگاکر اور مالیات کو مرکز کی جانب موڑ کر ایک وفاقی سرکار یا یونیٹری حکومت بنانے کی راہیں ہموار کررہی ہیں۔
قومی سلامتی کے معاملات میں مرکز اور ریاستوں کے مساوی ذمہ داری اٹھانے کی تجویز کے مطابق مرکزی حکومت پہلے ہی 'راشٹریہ سرکھشا ندھی' کیلئے ایک رقم مختص کرنے اور باقی رقم کو ریاستوں کی ترقی کیلئے تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔اگر ایسا ہونا ہے تو ریاستوں کیلئے مرکزی رقومات میں کٹوتی ہوسکتی ہے اور بالآخر ریاستوں کے مالیات پر چوٹ پڑ سکتی ہے۔
ریاستیں پہلے ہی کسانوں کے قرضے معاف کرنے اور بجلی کے ڈھانچہ کی ترتیبِ نوکے بوجھ سے جھوج رہی ہیں۔ریزرو بنک آف انڈیا(آر بی آئی)کی گذشتہ اکتوبر کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سنہ 2017-19میں سرمایہ کاری کے اخراجات میں کمی آئی ہے جبکہ تازہ مالی رپورٹوں میں انکشاف ہوا ہے کہ ریاستوں کی جانب سے قرضہ کی حصولی اور مرکز کی جانب سے رقومات کی منتقلی میں ہونے والا اضافہ، لائقِ ٹیکس اور ٹیکس کے لائق نہ ہونے والی مالیات سے ریاستوں کی توجہ ہٹانے کا سبب ہے۔
مرکزی حکومت نے مالی کمیشن کو عوام دوست پالیسیاں بنانے کے قابل بنایا لیکن بدلے میں اس نے مالی کمیشن کی روح کو نقصان پہنچایا جوکہ کساد بازاری سے بھی کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔