کورونا وائرس کے تناو اور خوف کو ختم کرنے کے لیے اقدامات
کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے۔ ہمارے طبی ماہرین لوگوں کو خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس وباء کے اثرات زائل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آبادیاں محفوظ رہیں اور لوگ صحت مند رہیں۔ حکومت کو توقع ہے کہ اس مقصد کے لیے ہر فرد اپنا کردار نبھائے گا۔ اس ضمن میں عام لوگوں کو سماجی دوریاں اختیار کرنے اور مشتبہ متاثرین کو الگ تھلگ رہنے جیسے اقدامات کا مشورہ دیا جارہا ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
کووِڈ 19 نامی اِس وبا کی وجہ سے لوگوں میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایمرجنسی شعبوں اور ہمارے طبی عملے پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ہمارا طبی عملہ ہمت کے ساتھ ہر اول دستے کے بطور کام کررہا ہے۔ اس وباء کے چلتے عوامی سطح پر طرح طرح کا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ محدود وسائل کے ساتھ ہفتوں تک اپنے گھروں میں رہنے اور سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی حکومتی ہدایات پر لوگ عمل کررہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کی نفسیاتی صحت پر اثرات مرتب ہوجانے کا امکان ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کی سماجی دوریاں اختیار کرنے، چاہے وہ خود ساختہ ہو یا معالجین کے کہنے پر کی جارہی ہو اور اس کے نتیجے میں ایک پر تناو صورتحال کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ اس عمل کی وجہ سے یکساں طور پر بچوں اور بالغوں کو ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ملک بھر میں سماجی دوریاں بنائے رکھنے کی ہدایات دی ہیں۔ زندگی کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ فی الوقت عارضی لاک ڈاون میں ہیں۔
ایک امریکی ماہر صحت اور ’چلڈرنز سروس‘ کے سینئر وائس پریذیڈنٹ ٹم پیری نے کہا، ’’ قرنطینہ میں رہنے کی وجہ سے آپ کی ذہنی صحت پر اثرات مرتب ہوجاتے ہیں کیونکہ اس عمل سے آپ اپنی آزادی کھو دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو صورتحال اپنے قابو سے باہر لگنے لگتی ہے۔ تنہائی کی وجہ سے وہ باقی دُنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نیند میں خلل پڑتا ہے اور کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آ تی ہے۔ لوگ صدمے اور تناؤ جیسی صورتحال سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ وہ خود کو اپنے دوستوں وغیرہ سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ان کو ایسا لگتا ہے، جیسے انہیں سزا دی جارہی ہو۔ حالانکہ یہ سب ان کی بھلائی کے لئے کیا جارہا ہے ۔‘‘
سماجی دوریاں بنائے رکھنے یا قرنطینہ میں جانے کی وجہ سے لوگوں میں تنہائی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ کووڈ 19کی وجہ سے بزرگوں پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بھارت میں بزرگ مریضوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کے نفسیاتی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ تنہائی کا شکار لوگوں میں کچھ زیادہ ہی پرتناو اثرات نمودار ہوجاتے ہیں۔ وہ خود کو خوش نہیں رکھ پاتے ہیں، وہ عدم اطمینان کا شکار ہوجاتے ہیں اور مایوس ہوجاتے ہیں۔ تنہائی اور ڈپریشن دو ایسی چیزیں ہیں ، جو یکساں علامات ظاہر کرتی ہیں ۔ لوگ اس کی وجہ سے بے بسی اور درد محسوس کرتے ہیں۔
دہلی میں 60 سے 80 سال کے بزرگوں کی عمر کے لوگوں پرکی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تنہائی کی وجہ سے ان عمر کے لوگوں میں ڈپریشن کی سطح بڑھ گئی ہے۔ تنہائی کی وجہ سے شراب نوشی کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ وہ محسوس کررہے ہیں کہ انہیں سماجی سطح پر سپورٹ نہیں ملتا ہے۔ وہ اپنے تئیں لوگوں کی اجنبیت محسوس کرتے ہیں اور اس وجہ سے شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک تحقیق میں پایا گیا کہ ذہنی تناؤ کی وجہ سے لوگوں کے اعصاب اور ان کے نظام مدافعت پر بھی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی وجہ سے خلیوں کے نظام مدافعت پر بھی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں میں بھی تنہائی کی وجہ سے خلیوں کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خود کشیوں پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق خود کشی کے خیال اور اسے عملی جامہ پہنانے کا تنہائی کے ساتھ ایک گہر ا تعلق ہے۔یعنی تنہائی کی وجہ سے خود کشی کے خیالات آجاتے ہیں اور پھر بعض لوگ اسے عملاً کر بیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ منتشر شخصیت کا بھی تنہائی کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔عدم برداشت اور تنہائی شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔کیونکہ اس کی وجہ سے شخصیت میں انتشار کے علامات ظاہر ہوجاتے ہیں۔اس کی وجہ سے سوجن، شوگر ، نظام مدافعت میں بدلاؤ جیسی چیزیں وقوع پذیر ہونے لگتی ہیں۔یہاں تک کہ امراض قلب اور بلند فشار خون کے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تنہائی سماجی خوشحالی میں بھی حائل ہوجاتی ہے۔یہ لوگوں میں کئی طرح کے نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے۔
وائرس کی وجہ سے ہمارے عمومی عدم استحکام اور دنیا میں پائی جانے والی صورتحال کی وجہ سے ہم میںتناؤ پیدا ہورہا ہے۔خاص طور سے نوجوان اس سے متاثر ہیں۔ کیونکہ انہیں کبھی بھی اس طرح کی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا تھا۔معمول کی زندگی میں یہ اچانک تبدیلی بہت تکلیف دہ ثابت ہورہی ہے۔اچانک سماجی دوریاں قائم ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کے نفسیاتی صحت پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر سمانتھا میلٹزر بروڈی ، جو یو این سی اسکول آف میڈیسین میں نفسیاتی شعبے کے چیئر پرسن ہیں، ان کا کہنا ہے ،’’ایسے حالات میں لوگوں کا تکلیف محسوس کرنا اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ اس عدم استحکام اور تنہائی کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑرہا ہے اور یہ ہم سب کے لئے واقعی ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘
چین میںکورو ناوائرس کی وجہ سے 3281اموات رونما ہوئی ہیںاور اٹلی میں 7503اموات ہوئی ہیں۔ ان خبروں کی وجہ سے لوگوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے۔بھارت میں بھی 26مارچ تک 563متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے۔ جو لوگ معمولی سردر د یا زکام و کھانسی کا شکار بھی ہیں ان کو یہ خوف لاحق ہورہا ہے کہ کہیں وہ بھی کووِڈ19 کا شکار تو نہیں ہوگئے ہیں۔ لوگوں کو اپنے حفظان صحت کا غیر معمولی خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسکی وجہ سے انہیں پر تنائو خیالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لوگوں کے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی آگئی ہے ۔ ان کے کھانے پینے ، سونے کے عادات میں تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے وہ غصے ، تناؤ، پریشانی، خوف، بے بسی کے احساس کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے جسمانی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ادویات کا استعمال، شراب نوشی، سگریٹ اور دیگر منشیات کا استعمال بڑھ گیا ہے۔لوگوں میں سستی، ناراضگی ، جھنجھلاہٹ وغیرہ جیسی علامات پیدا ہونے لگی ہیں۔
ان نامواقف حالات میں لوگوں کو خود اپنی رہنمائی کرنے اور اپنا تحفظ کرنے کا ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے تناؤ کو دور کرنا سیکھنا ہوگا، تاکہ قرنطینہ کے اس دور میں وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار نہ ہوں۔ہم بار بار یہ ہدایات سنتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے بطور اپنے گھروں میں رہیں ، خود ساختہ تنہائی اختیار کریں ، اچھی طرح ہاتھ دھو لیں وغیر وغیرہ ۔ لیکن ہم ایسی بہت کم رپورٹس دیکھتے ہیں ، جن میں ہمیں منفی جذبات کو قابو کرنے کے گن سکھائے جاتے اور تناؤ پر قابو پانا اور اپنی خیال رکھنے اور اپنے اور آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھنا سکھایا جاتا۔
کوروناوائرس پھیلنے کی وجہ سے پیدا شدہ مایوسی کو دور کرنے اوراضطراب ، پریشانی سے چھٹکارا پانے کے کچھ طریقے :
( 1) صرف کورونا وائرس سے متعلق خبریں سننے اور دیکھنے کی وجہ سے پریشانی اور مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس وباء کے حوالے سے صحت کو محفوظ رکھنے اور احتیاطی اقدمات کے بارے میں ہی تازہ جانکاری حاصل کی جائے اور غلط فہمیوں کو پیدا نہ ہونے دیں۔
(2) یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ سردی ، کھانسی یا بخار میں مبتلا ہیں وہ کورونا وائرس کا شکار ہیں۔ اگر آپ کو شبہ ہے تو اپنے ڈاکٹر کو کال کریں۔
(3) تمام لوگ اس وقت وباء کے بارے میں باخبر ہیں اور اس کی وجہ سے غیر معمولی حالات کا سامنا کررہے ہیں ۔ آپ اکیلے نہیں ہیں، جو یہ سب کچھ سہہ رہے ہیں۔ اسلئے بے جافکر چھوڑیں اور خود کو سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے ذریعے مصروف رکھیں۔
(4)حکومت اور طبی اداروں کی جانب سے فراہم کردی احتیاطی اقدامات کو عملائیں اور اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔خود کو آرام دیں ، میڈیٹیشن میں رکھیں اور کھانے پینے کے صحت مند عادات اختیار کریں۔
(5)حکومت نے احتیاطی طور پر اسکولوں، کالجوں اور سنیما گھروں کو بند کردیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ خود کومصروف رکھنے کے دیگر ذرائع اختیار کریں۔ اپنے پرانے شوق اُجاگر کریں، خوشی منائیں ۔ اس طرح کی باتوں سے آپ کو اطمینان حاصل رہے گا۔
(6) زیادہ خبریں نہ دیکھیں ۔ بار بار کورونا وائرس کے بارے میں خبریں دیکھنا یا سننا آپ کو پریشان کرسکتا ہے۔
( 7)خود کو پالتوجانوروں کے ساتھ مصروف رکھیں ۔ تاہم احتیاط کے ساتھ ۔
(8) پریشان کن خیالات کا ایک دوسرے کے ساتھ اظہار کریں ۔ ایسا کرنے سے ان کے اثرات زائل ہونگے ۔ اگر مایوسی قابو سے باہر ہوجائے تو ایسی صورت میں ذہنی صحت کے پیشہ ور معالجین کی مدد لیں۔
اگر آپ خود میں کوئی خلاف معمول تبدیلی محسوس کریں تو ہاتھ پر ہاتھ دھریں نہ بیٹھیں۔ 104نمبر ڈائل کریں۔ یہ گجرات کا ہیلپ لائن نمبر ہے۔ اپنی جسمانی صحت کے بارے میں بتائیں اور سوالات پوچھیں ۔ نفسیاتی مدد کی خاطر کونسلنگ کے لئے کسی بھی وقت ( رات دن ) آپ گجرات میں اس نمبر (1800233330) پر کال کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ریتو تریویدی
( انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ، گاندھی نگر)