کورونا وائرس کی وبا،جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اس کے دوران دنیا میں صحتِ عامہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
چین میں یکم مارچ 2019 کو کرونا وائرس کے پہلے مریض کی نشاندہی کے محض 4 ماہ بعد آج دنیا کے تقریباً 200 ممالک میں قریب 6 لاکھ افراد اس وائرس سے متاثر ہیں جن کا لگ بھگ 1 فیصد ہلاک ہوچکا ہے۔
اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی بیماری اتنی تیز رفتاری کے ساتھ پھیل کر اتنی جلدی اتنے لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی ہے۔
اس مہلک بیماری سے نمٹنے کی طبی کوششیں جاری ہیں اور یہ ابھی آبادی کے 1 -10% فیصد تک محدود ہے۔ لوگوں کو بیمار کرنے کے علاوہ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں ممالک، شہروں اور اب گھروں کے اندر لوگوں کی نقل و حمل کو، مصنوعات اور خدمات کی دستیابی کو اور دیگر معمولات کو متاثر کردیا ہے۔
بظاہر صحت مند دنیا کی 90 فیصد آبادی کو گھر بیٹھنے کی ہدایت دی جاچکی ہے۔تنہائی میں گھر بیٹھ کر ہم کس طرح کورونا کی انسدادی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں؟ یہاں پر صحتِ عامہ، جس میں بیماروں کے علاوہ بھی لوگ شامل ہیں،کا کردار بنتا ہے۔
جب ایک انسان بے آرام ہوجاتا ہے، وہ ایک ہیلتھ ورکر سے رابطہ کرتا ہے، تشخیص کرواتا ہے، دوائی لیتا ہے اور پھر ہدایت کے مطابق اپنی دیکھ بھال کرواتا ہے جس سے وہ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ایک بیمار شخص کی اس طبی نگہداشت میں طبی اور نیم طبی عملہ کا کردار ہے۔
دوسری جانب صحتِ عامہ کا نظام بیماروں کا علاج کرنے کے برعکس بہت سارے لوگوں کی بہت سارے لوگوں کی خاطر ایک منظم چیز ہے۔
صحتِ عامہ کی مداخلت کا مقصد آبادی کو بیماریوں کے امکانات سے بچانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ یہ آبادی جسمانی، سماجی اور مالی طور پر فِٹ رہے۔اس کے لئے صحت کے مختلف عوامل کی مزید وسیع اور گہری سمجھ درکار رہتی ہے۔
کورونا وائرس کے معاملے میں صحتِ عامہ کے اقدامات میں یہ باتیں شامل ہیں
1: ایسی جانکاری، جو لوگوں کے رویے میں تبدیلی لاتی ہو،کی شکل میں آگاہی پیدا کرنا۔
2: تالہ بندی کرکے لوگوں کی نقل و حمل پر پابندی، سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹنسنگ)،اور تمام ممکنہ (متاثر) افراد کو بار بار ہاتھ دھلوانے ،تمام ممکنہ (متاثرہ) مقامات پر چھڑکاؤ کرنے اور اس طرح کے اقدامات سے وبا کو مزید پھیلنے کے امکانات کو ختم کرنا۔
3: مشتبہ(بیماروں)کی نشاندہی کرکے انہیں تنہا رکھنا۔
4: (کورونا سے)متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں رکھنا اور ان کا علاج کرنا۔
5: (کرونا سے) متاثرہ افراد یا غیر متاثرہ خاندانوں پر سماجی اور مالی اثر کم کرنا۔
یہ اقدامات کلینکوں اور اسپتالوں میں انفرادی علاج کے کام سے الگ ہیں اور سارے سماج کے لیے ایک منظم طریقے پر غیر طبی اشخاص کے ذریعہ ہوتے ہیں۔
کرونا وائرس کا مندرجہ ذیل چیزوں کے ساتھ انتہائی دلچسپ تعلق ہے:
1: آبادی اور، ہجرت و اَربانائزیشن کے حوالے سے،ترقی۔
2: مائیکرو اکانامکس، آمدنی کے رُک جانے اور بیماری کی تشخیص و علاج پر آنے والے خرچے کے حوالے سے، وبا کے بچاؤ اور اسے قابو کرنے کے لیے از سرِ نو وسائل مختص کیے جانے کے حوالے سے مائیکرو اکانامکس اور سُست روی کا اثر کم کرنے سے۔
3: سماجی و روئیہ کے اطوار، سوشلائزیشن اور سوشل ڈسٹنسنگ کے حوالے سے ۔
4: طبی و غیر طبی رسد اور سپلائی کا انتظام سنبھالنے سے۔
5: وبا کے امکانات اور اس کے انساد کی کوششوں کا صحیح صحیح اندازہ لگانے میں مددگار ثابت ہونے والے اعدادوشمار سے۔
6: گورننس اور امن و قانون کی صورتحال سے۔
7: وبا کے اقتصادی اثرات سے نپٹنے کیلئے موجودہ اور ابھرتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقیم کاری کو یقینی بنانے کیلئے مالی اعانت۔
صحتِ عامہ کے اقدامات 21ویں صدی میں اسی اہمیت کے حامل ہیں کہ جو اہمیت20ویں صدی میں اینٹی بایوٹکس اور ویکسینز کی تھی۔کرونا وائرس کی وبا نے مستقبل کے اقدامات کے حوالے سے یہی بنیاد رکھی ہے۔
مضمون نگار میور تریودی گجرات کے دارالحکومت گاندھی نگر میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (آئی آئی پی ایچ) میں بطور اسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نوٹ:مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مصنف کی ذاتی آرأ ہیں۔