کشمیر کے بہانے شیوسینا نے بی جے پی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ مرکزی حکومت دفعہ 370 کو ختم کر کے کشمیر میں امن بحالی کا ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہے لیکن وہاں کے حالات معمول پر نہیں ہیں۔
شیوسینا نے اپنے ترجمان اخبار سامنا میں لکھا ہے کہ بی جے پی پورے ملک میں 370 ہٹا کر خوشی کا اظہار کرتی ہے اور مرکز کے زیر نگراں جموں و کشمیر میں پولیس ان لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے جو ترنگا کی پرچم کشائی کے لئے جمع ہوتے ہیں۔
کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ کے عنوان سے لکھے سامنا کے اداریہ میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ کنگنا راناوت پر بھی شیوسینا نے نشانہ سادھا ہے۔
سامنا نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ 'کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ اس تناظر میں ہر روز ہونے والے واقعات اور پیشرفت شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ بھارت کے عوام کو کشمیر کے بارے میں سخت احساس ہے۔
کانگریس کے دور میں کشمیر ہاتھ سے نکل گیا تھا، اسے بی جے پی نے واپس لایا ہے، اگر یہ حقیقت ہے تو سرینگر کے لال چوک پر قومی پرچم کشائی کی مخالفت کیوں کی گئی۔ اس کا جواب ملک کو ملنا چاہئے۔
کشمیر بھارت کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے، اس کو ثابت کرنے کے لئے مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا اور کشمیر کے پیروں سے غلامی کی بیڑیاں توڑ کر پھینگ دی۔ اس کے لئے تمام لوگوں نے بی جے پی کو مبارکباد دی۔
آرٹیکل 370 کو ختم کر کے بھارت کو کھلی سانس لینے کے لئے آزاد کر دیا گیا، یہ سب دہلی میں مودی اور شاہ کی حکمرانی کی وجہ سے ہوا لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھی بی جے پی کارکنوں کے ذریعہ تقریباً چار روز قبل سری نگر کے لال چوک پر قومی پرچم کشائی کیوں نہیں کی جا سکی؟
لال چوک پر ترنگا لہرانے پہنچے بی جے پی کارکنوں کو کشمیر پولیس نے روک دیا اور انہیں حراست میں لے لیا۔
یہ تصویر کیا کہہ رہی ہے؟
مطلب کشمیر میں اب بھی صورتحال بہتر نہیں ہورہی ہے۔ صرف ایک اعلیٰ درجے کا میک اپ ہی ٹھیک لگ رہا ہے۔
اب کشمیر کی تین بڑی جماعتیں ایک ہوگئی ہیں اور وہ آرٹیکل 370 دوبارہ لانے کے لئے لڑنے کے لئے پرعزم ہیں۔
سامنا نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اعلان کیا کہ ہم آرٹیکل-370 کو دوبارہ لانے کے لئے چین کی مدد لیں گے، یہ غداری ہے۔
دوسرے محبوبہ مفتی نے چیلینج کیا ہے کہ کمشیر میں قومی پرچم کیسے لہرا سکتا ہے، ان دونوں رہنماؤں کی زبان بیگانگی اور انقطاع ہے۔
بھارت کبھی بھی ترنگے کی توہین برداشت نہیں کرے گا، یہ ملک کی روح ہے۔
5 اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا گیا۔ تب تک جموں و کشمیر کا الگ نشان اور الگ دستور تھا اور یہ چیز مادر بھارت کے دل میں چھرا گھونپنے کی طرح درد دے رہی تھی۔
ان دونوں دفعات کی وجہ سے جموں و کشمیر بھارت کے نقشے پر ہونے کے باوجود بھارت کی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے تھا۔
سامنا نے آگے لکھا ہے کہ مودی، شاہ نے آزاد قوم کو برطرف کردیا، یہ ٹھیک ہے لیکن آج بھی اگر ہمیں کشمیر میں قومی پرچم کشائی کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گی تو کیسے کام ہوگا؟
سامنا نے آگے لکھا ہے کہ یہاں تک کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد بھی صورتحال ویسے ہی ہے جیسی تھی اور لوگوں پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ فوج کی نفری میں اضافہ کیا گیا ہے اور عسکریت پسندوں کے حملوں کا خوف بڑھ گیا ہے۔
بی جے پی نے ایسا ماحول پیدا کیا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری پنڈت وطن واپس آئیں گے اور پنڈتوں کو اپنی زمین اور جائیداد واپس مل جائے گی۔
اس بارے میں گڑبڑ ہے کہ کتنے پنڈت گھر لوٹے۔
اس عرصے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکن مارے گئے، یہ بدقسمتی ہے۔
آرٹیکل 370 کے رہتے ہوئے باہر والے وہاں نہیں جاسکتے تھے اور ایک انچ زمین بھی نہیں خرید سکتے تھے، باہر سے لوگ وہاں جاکر تجارت اور کاروبار نہیں کرسکتے تھے، لہذا آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں تجارت اور صنعت کو فروغ ملے گا۔ ایسی تصویر پیش کی گئی۔
حب الوطنی سے متاثر کچھ بڑے صنعتکاروں نے بھی کشمیر میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا لیکن سال گزر گیا، ابھی تک ایک روپیہ کا بھی سرمایہ نہیں لگایا گیا۔
بے روزگاری کے شکار نوجوانوں نے ایک بار پھر تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے اور دفعہ 370 سے محبت کرنے والے رہنما ان نوجوانوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔
لیہہ لداخ کو کشمیر سے الگ کیا، بی جے پی نے لداخ کونسل کا انتخاب جیت لیا اور اپنی فتح کا جشن منایا لیکن مرکزی کشمیر میں قومی پرچم کشائی نہ کر پانا ایک طرح کی شکست ہے۔
پولیس نے ترنگا لہرانے والے نوجوانوں کو حراست میں لے لیا، یہ پولیس پاکستان کی نہیں تھی، یہ اسی مٹی کی تھی۔ اس وقت کشمیر میں صدر کا راج ہے، یعنی دہلی وہاں حکمران ہے لیکن لال چوک پر قومی پرچم کشائی جرم ثابت ہوا ہے۔
پھر آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد کیا فرق آیا؟
ممبئی کو پاکستان مقبوضہ کشمیر کہنے والی ڈپلیکیٹ مردانی رانی کو دہلی حکومت مرکزی سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔ اس سکیورٹی میں وہ ممبا ماتا کی توہین کرتی ہیں لیکن کشمیر میں مادر ہندوستان کے اعزاز میں قومی پرچم لہرانے والے نوجوانوں کو حراست میں لیا جاتا ہے، ان لڑکوں کو کوئی تحفظ نہیں ہے اور ترنگے کی بھی کوئی حفاظت نہیں ہے۔
یہ عجیب بات ہے، ہندوتوا کا تعلق قوم پرستی سے ہے۔ زمین کے ایک ٹکڑے پر ترنگا لہرانا ممنوع ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ہم اس سرزمین کے مالک نہیں ہیں!
اس زمین پر کوئی اور حکمرانی کر رہا ہے، یہ حکمران عسکریت پسند ہیں یا بیرونی۔
ممبئی میں ابھی تک ترنگا لہرا رہا ہے یعنی یہ حصہ پاکستان کا نہیں ہے۔ جہاں پاکستانیوں کی مرضی چلتی ہے، وہاں ترنگے کی توہین کی جاتی ہے۔ وہ اداکارہ لال چوک پر قومی پرچم نہ لہرا نے پر خاموش ہے جبکہ اصلی مردانگی وہی ہیں!