گاندھی جی نے اُن کے خلاف مشہور مقدمے کی پیروی کے دوران کہا تھا کہ دفعہ 124اے انڈین پینل کوڈ( آئی پی سی ) میں شامل تمام سیاسی دفعات میں سب سے خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ قانون برطانیہ نے یہاں بھارتی شہریوں کے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لئے بنایا ہے۔ اس قانون کے مطابق حکومت ہند مخالفت میں بیان دینے، نفرت پھیلانے اور توہین کرنے کی سزا عمر قید ہے۔اسی مقدمے کے دوران گاندھی نے کہا تھا کہ وفاداری کو قانون کے ذریعے نافذ نہیںکیا جاسکتا ہے۔اگر حکومتی نظام کے تئیں کوئی شخص وفادار نہیں ہے تواسے بھی اس کا اظہارکرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ برطانوی راج میں بھارت میں تھامس میکائیولی نے غداری کا پہلا قانون سنہ 1837ء میں بنایا تھا۔ لیکن جب سنہ 1870ء میں انڈین پینل کوڈ متعارف ہوا تو غداری کے اس قانون کو کسی حد تک علاحدہ رکھا گیا ۔ بعدازاں سر جیمز سٹیفن سن نے انڈین پینل کوڈ میں ترمیم کرکے دفعہ 124اے متعارف کرایاتھا۔اس کا مقصد بھارت میں برطانیہ مخالف قوتوں کو دبانا تھا۔
سال 1891ء میں بنگلہ دیشی میگزین کے ایڈیٹر جوگیندر چندرا بوس اس قانون کا پہلا شکار بنے تھے ۔ انہوں نے اپنے میگزین میں حکومت کی نوآبادیاتی پالیسی کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کے بعد کئی دیگر قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے خلاف بھی اسی قانون کا اطلاق کیا گیا ۔ بال گنگا دھر اور گاندھی کو کیسری اور ینگ انڈیا میں تنقیدی مضامین لکھنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر تمام قومی لیڈران نے اس قانون کی مخالفت کی اور ساتھ ہی یہ عزم ظاہر کیا کہ آزادی کے بعد اس قانون کو ختم کیا جائے گا۔آزاد بھارت کے اولین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کھلے عام اس قانون کی نکتہ چینی کی تھی۔انہوں نے کہا تھا، ’’ سیکشن 124اے ایک بہت ہی قابل اعتراض اورنا پسندیدہ قانون ہے اور عملی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر اسے قائم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
حالیہ ایام میں غداری کا قانون کئی دانشوروں، پروفیسروں، سماجی کارکنوں، طلبا اور صحافیوں کے خلاف درج کیا گیا ۔ بعض لوگ یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ سیکشن 124اے کے تحت قوم دُشمنوں کو بک کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔کیونکہ اس قانون کے تحت ملزمان وہ سزا مل سکتی ہے ، جس کے وہ مستحق ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سیکشن میں قوم دشمنی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آئین کی نکتہ چینی کرنے اور حکومت کی نکتہ چینی کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔حکمران اور سیاستدان یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔جمہوری نظام کا ایک بنیادی اصول حکومت سے سوال کرنا اور اس کی نکتہ چینی کرنا ہے۔ جمہوری اصولوں کے تحت کسی بھی لیڈر کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔لیکن دفعہ 124اے میں شامل حکومت کی نافرمانی اور حکومت پر عدم اعتبار کے یہ الفاظ در اصل جمہوریت کی روح سے متصادم ہیں۔
حکومتی پالیسیوں کی خامیوں پر سوال کرنے کو غداری قرار دیا جارہا ہے۔ سال 2012.13میں تقریباً 9ہزار تاملوں پر غداری کے الزامات عائد کئے گئے کیونکہ انہوں نے کدان کلام نیو کلیئر پلانٹ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔سال 2018ء میں مقامی آدی واسیوں نے جہار کھنڈ میں پتھالگاڑی تحریک شروع کی تھی کیونکہ ریاستی حکومت نے ان کی زمین کے حقوق چھیننے کی کوشش کی تھی ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے حکمرانوں نے انہیں خاموش کرنے کیلئے ان پر غداری کے الزامات عائد کئے ۔کونتی ضلع میں دس ہزار ٹرائبل لوگوں پر 124اے قانون کا اطلاق عائد کیا گیا ۔ہیمنت سورئین کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اُن کی حکومت نے بعد میںیہ مقدمات واپس لئے۔سورئین نے کہا کہ قوانین کو عوام کے تحفظ کے لئے بنایا جاتا ہے نہ کہ سیول سوسائٹی کو دبانے کے لئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ غداری کا الزم بہت سنگین ہے ۔ انہوں نے متعلقہ افسران سے یہ بھی کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ انہوں نے آدی واسیوں کے خلاف یہ قانون استعمال کیوں کیا۔
سنہ 1962ء میںکیدر ناتھ بنام بہار سرکار مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ غداری کا مقدمہ کسی پر اُس صورت میں عائد کیا جانا چاہیے اگر اس نے جان بوجھ کر کشیدگی پھیلانے اور حکومت کو گرانے کی کوشش کی ہو۔ستمبر 2016میں کورٹ نے واضح کیا کہ جو کوئی بھی کسی پر غداری کا الزام عائد کرے اسے متذکرہ تشریح کا خیال رکھنا چاہیے ۔ قومی لاء کمیشن نے کہا ہے کہ ریاستی معاملات پر اگر کوئی جھنجلاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کو غداری تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود کئی ریاستوں میں طلبا اور کارکنوں پر غداری کا الزام عائد کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر حکومت مخالف بیانات دیئے تھے ۔دہلی سے آسام اور آسام سے راجستھان اور کرنا ٹک تک اس طرح کے کیسوں کی بھر مار دیکھنے کو ملتی ہے۔جسٹس سنجے ہیج نے کہا ، ’’ غداری ایک خاص طرح کا اور بہت ہی سنگین جرم ہے اور جب یہ الزام اُن عام شہریوں، کو دہشت ذدہ کرنے اور خاموش کرنے کیلئے لگایا جاتا ہے ، جنہوں نے مصائب کے خلاف آواز اٹھائی ہو تو یہ ریاستی دہشت گردی ہے ۔(غداری کے ) مقدمات میں زیادہ تر کیسوں میں کسی کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔‘‘
نیشنل کرائم ریکارد بیرو کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2014ء اور سنہ 2018ء کے درمیان غداری کے 232مقدمات میں 463افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔سنہ 2016سے سنہ 2018ء تک صرف 7افراد غداری کے مرتکب پائے گئے ۔ غداری کے الزام کے تحت درج شدہ معاملات میں سے 80فیصد کیسوں میں فردجرم عائد ہی نہیں کی گئی ہے۔جن پر غداری کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں ، وہ سرکاری نوکریوں کے لئے نااہل قرار پاتے ہیں۔ان کے پاسپورٹ ضبط کئے جاتے ہیں۔ کسی بھی احتجاج کرنے والے کو قومی خطرہ قرار دیکر اس کے خلاف غداری کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے گرفتار کیا جاتا ہے۔
ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ یافتہ ہیرن گوہین، سماجی کارکن اکھل گگوئی اور سینئر صحافی منجیت مہانتا کے خلاف شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرنے پر غداری کے الزامات عائد کئے گئے ۔کرناٹک میں ایک طالب علم کی ماں اور اسکول ہیڈ ماسٹر پر غداری کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ اسکول کے طلبا نے شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں ایک ڈرامہ سٹیج کیا تھا۔کئی لوگوں جنہوں نے بھارت کے مختلف حصوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا، ان پر بھی اسی طرح کے الزامات عائد کئے گئے ۔
جہار کھنڈ میں اس طرح کے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے اے ڈی جی انل پلٹا نے کہا کہ جو لوگ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جائیں گے ، ان کے خلاف دفعہ 188( سرکاری احکامات کی نافرمانی ) کے تحت بک کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنا اس قانون کا غلط استعمال ہے۔ لیکن عملی طور پر منتخب نمائندگان اس قانون کا استعمال اُن کے خلاف استعمال کرتے ہیں ، جو اُن کے خلاف بات کرتے ہیں۔جسٹس دیپک گپتا نے مشورہ دیا ہے کہ اس قانون کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے بھی ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس سے گزارش کی ہے کہ وہ غداری کے قانون میں ضروری ترمیم کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔اس کے نتیجے میں محکمہ نے نیشنل لاء کمیشن سے کہا ہے کہ وہ جرائم سے متعلق تمام قوانین کا جائزہ اور ضروری تبدیلی لانے کے لئے اقدامات کرے ۔سال 2018ء میں کمیشن نے اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ غداری کے قانون کا سر نو جائزہ لیا جائے ۔لیکن حکومت کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔
برطانیہ جو بھارت میں غداری کا قانون متعارف کرایا تھا، اس نے اپنے ملک کے آئین سے اس قانون کو دس سال قبل ہی ختم کردیا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں اس قانو ن کو گاندھی جیسے بھارتی شہریوں کی آزادی دبانے کیلئے بنایا گیا تھا ۔چونکہ سنہ 1967ء میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روکتھام سے متعلق ایکٹ متعارف کیا گیا ہے اسلئے 124اے کو برقرار رکھنا بھارتی جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ 124اے اظہار رائے کی آزادی میں حائل بن گیا ہے جو بھارتی شہریوں کا بنیادی حق ہے ۔
بہار میں 49معروف شخصیات ، جنہوں نے وزیر اعظم مودی کے نام ایک خط لکھا تھا ، جس میں انہوں نے ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا اس پر غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ۔اس قانون کو سماج کے ہر مکتب فکر کے لوگوں نے بہار حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی ، جس کی وجہ سے پولیس نے یہ مقدمات واپس لئے۔ایک وکیل نے عدالت میں ایک عرضداشت پیش کی جس میں ایک سیاستدان اور اداکارہ دیویا سپندانہ کے خلاف کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ ان دونوں نے کہا تھا کہ پاکستان جہنم نہیں ہے۔
بنگلورو پولیس نے حال ہی میں ایک19سالہ جرنلزم سٹوڈنٹ امولیا لیون کو گرفتار کرکے دفعہ 124اے کے تحت بک کیا کیونکہ اس نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے نعرے لگانا اور دوسرے ملکوں کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ کرنا ملک کے ساتھ غداری قرار نہیں دی جاسکتی ہے اور نہ ہی بھارت نے پاکستان کو اپنا دُشمن قرار دیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات ہیں۔ اوراگر بھارت پاکستان کو ایک دُشمن ملک قرار بھی دے تب اس طرح کے نعرے لگانا اخلاقی لحاظ سے غلط تو ہوسکتا ہے لیکن آئینی لحاظ سے اس طرح کے نعرے لگانے کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی سدھرشن ریڈی نے غداری کے قانون کی مخالفت کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ( اس قانون کی وجہ سے ) لبرل آئینی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔