بہار میں خواتین خاموش ووٹرز ہیں جو ہر بار خاموشی کے ساتھ نتیش کے حق میں ووٹ کرتی ہیں، یہی نتیجہ اس بار کے انتخابات میں بھی دیکھا جا رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے کہ نتیش حکومت کی جانب سے ریاست بھر میں مکمل طور پر شراب بندی کرنا ہے۔
ایک دوسری جو سب سے بڑی وجہ ہے جس نے این ڈی اے کے اتحاد کو کامیابی حاصل کرنے میں مدد ہوئی، ریاست کے مسلم ووٹرز کی تقسیم کاری کی وجہ سے این ڈی اے کو فائدہ ہوا ہے۔
ریاست میں مسلم رائے دہندگان مرکزی طور پر آر جے ڈی کے ساتھ جڑے رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آر جے ڈی یادو مسلم 'ایم وائی' کا کردار فیصلہ کن مانا جاتا ہے، ریاست میں تقریبا 17 فیصد مسلم ووٹرز ہیں، جو جیت کا فرق پیدا کر سکتے ہیں، لیکن اس بار یہی ووٹرز مختلف حصوں میں تقسیم ہوتے نظر آئے جس سے یقینی طور پر این ڈی اے کو فائدہ ہوا۔
یہ پڑھیں: 'اویسی نے ہمارا کھیل بگاڑا'
اس بار مسلم ووٹروں کے سامنے بہت سارے آپشن تھے، آر جے ڈی کی سربراہی میں عظیم اتحاد انتخابی میدان میں تھا، جبکہ بہار میں 'اے آئی ایم ایم' نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی، اس کے علاوہ بی ایس پی جیسی جماعتیں بھی اپنے علاقے میں مسلمان ووٹرز کو راغب کرنے میں کامیاب تھیں، اسد الدین اویسی کی 'اے آئی ایم آئی ایم' اس بار پانچ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی، جو آر جے ڈی کا ایک بہت بڑا ووٹ سمجھا جاتا ہے، اور ان نشستوں پر عظیم اتحاد کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔
حالانکہ انتخابی نتائج آنے سے قبل سیاسی تجزیہ کار یہ مان رہے تھے کہ سیمنچل کے مسلمان ووٹر اویسی کی پارٹی کی بجائے سیکولر امیج رکھنے والے عظیم اتحاد کی جماعتوں کو ترجیح دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
آر جے ڈی کا بھی کہنا ہے کہ اگر اویسی کا ریاست کے انتخابات میں دخل نہیں ہوتا تو ہماری جیت یقینی ہوتی، پارٹی کے ریاستی صدر جگدا نند سنگھ نے کہا کہ اویسی عنصر نے تیسرے مرحلے میں کام کر دیا۔