ETV Bharat / bharat

خودکُشی کے واقعات کی رپورٹنگ ایک حساس معاملہ - reporting Suicide with Sensitivity

آرتی دھر نے میڈیا کے ذریعہ سشانت سنگھ راجپوت کی موت پر کی جانے والی رپورٹنگ پر کہا ہے کہ میڈیا کو خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز بنانے کے بجائے حساسیت کے ساتھ پیش کرنی چاہیے، خود کُشی کے رجحان کو روکنے میں میڈیا ایک مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی میڈیا خود کُشیوں کے بحران سے نمٹنے میں ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا اگر خود کُشی کے واقعات کو سنسنی خیزیت کے ساتھ نشر کرنے سے گریز کرتے ہوئے اور اس کے برعکس یہ بتائے کہ ناسازگار حالات سے کیسے نمٹا جائے تو یہ اس کا سماج کے تئیں ایک مثبت کردار ہوگا۔

خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ ایک حساس معاملہ
خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ ایک حساس معاملہ
author img

By

Published : Jun 15, 2020, 6:58 PM IST

منفی رجحان پر قابو پانے کے لئے میڈیا کو ایک مثبت کردار نبھانے کی ضرورت

اتوار کی بعدِ دوپہر ایک المناک خبر سُننے کو ملی۔ اداکار سُشانت سنگھ راجپوت چل بسے۔ اُن کی لاش مبینہ طور پر ممبئی کے ایک پوش رہائشی علاقے میں واقع اُن کے فلیٹ میں لٹکی ہوئی پائی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اُنہوں نے خود کشی کرلی ہے۔

اس طرح سے چونتیس سالہ اداکار، جس کا مستقبل شاندار ہوسکتا تھا، کی زندگی تمام ہوگئی ہے۔ بہرحال جو کچھ ہوا ہے، اُسے اب بدلا نہیں جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمیں مستقبل میں خود کُشی کے واقعات کے رپورٹنگ کا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کے چند ہی منٹوں بعد ٹیلی ویژن چینلوں نے اس خبر کو دن بھر کی سب سے بڑی خبر کے بطور نشر کیا۔ بجائے اس کے کہ اس خبر کے حوالے سے ایک زندگی گل ہوجانے کے بارے میں بات کی جاتی، نیوز چینلوں نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ سُشانت سنگھ راجپوت نے کس طرح سے خود کشی کرلی۔

بیشتر ٹیلی ویژن چینلز دن بھر اس خبر کو ان تفصیلات کے ساتھ چلایا کہ موصوف نے کس طرح سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔ اُن کی خود کشی کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے ناظرین کو چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات بھی بتائی گئیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ جب اُن کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو کمرے کے اندر اُنہیں کس رنگ کے کپڑے کے ساتھ لٹکا ہوا پایا گیا۔ جب اُن کی میت کو گھر سے باہر نکالا جارہا تھا تو اس منظر کو براہ راست نشر کیا جارہا تھا جبکہ دوسری جانب پٹنہ میں اُن کے گھر پر ٹیلی ویژن چینلز لواحقین کو اس واقعہ پر بات کرنے پر اصرار کر رہی تھیں۔

سب سے بدترین بات یہ دیکھنے کو ملی کہ اس موقعے پر اُن کی خودکُشی کے اسباب کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگائے جارہے تھے۔ جب تک یہ پتہ چلا کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور اس ضمن میں اُن کا علاج و معالجہ بھی چل رہا تھا، لیکن ٹیلی ویژن چینلز پر یہ کہا جارہا تھا کہ اپنے پیشے میں ناکامی کی وجہ سے اُنہوں نے یہ انتہائی اقدام کیا اور کبھی یہ کہا جارہا تھا کہ اپنی گرل فرئنڈ سے علاحدہ ہوجانے کے غم اور مالی مشکلات کی وجہ سے اُنہوں نے خود کُشی کرلی ہوگی۔ توقع کے مطابق دوسرے دن اخبارات نے بھی اس خبر کو پہلے صفحے پر اداکار کی تصویر اور اُن کی زندگی کے خاتمے کی تفصیلات کے ساتھ شائع کیا۔ ظاہر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ’بریکنگ نیوز ‘‘ کی دوڈ میں لگا ہوا ہے اور اخبارات اس طرح کی خبروں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تفصیلات بہم پہنچانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کررہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ خبر نمایاں طور پر جاری کرنے کی ضرورت تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خود کُشی کے واقعات کو اُجاگر کرنا مناسب ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ بادی النظر میں ہی خود کُشی کا واقعہ تھا، اس لئے میڈیا نے اسے خود کُشی بتا کر ہی رپورٹ کیا۔ لیکن یہاں پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خود کُشی کے واقعات کی اس قدر تشہیر کے نتیجے میں کچھ دیگر لوگ اس طرح کا انتہائی اقدام کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں۔ دُنیا بھر میں پچاس سے زیادہ تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ خود کُشی کے واقعات کی نیوز کوریج کے نتیجے میں بعض ایسے لوگ بھی خود کُشی کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں، جو ناموافق حالات سے دوچار ہوں اور جن کے ذہن میں خود کُشی کرنے کے خیالات موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ میڈیا میں خود کُشی کرنے کے ایسے واقعات کی تفصیلات پڑھ کر واقعی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ مشہور ہستیوں کی خود کُشی کی تفصیلات جاننے کے بعد ایسے لوگ سوچنے لگیں گے کہ خود کُشی کرنا ٹھیک ہی ہے۔

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ میڈیا میں خود کُشی کے واقعات کی تشہیر کے نتیجے میں خود کُشی کرنے کے عمومی رجحان میں 2.5 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس رجحان کو ’کاپی کیٹ سیو سائیڈ‘ یعنی خود کُشی کے اقدام کی ’نقل کرنا‘ پکارا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ کسی مشہور ہستی کی خود کُشی کرنے کے نتیجے میں خود کُشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

دوسری جانب اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ خود کُشی کے رجحان کو روکنے میں میڈیا ایک مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی میڈیا خود کُشیوں کے بحران سے نمٹنے میں ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ میڈیا اگر خود کُشی کے واقعات کو سنسنی خیزیت کے ساتھ نشر کرنے سے گریز کرتے ہوئے اور اس کے برعکس یہ بتائے کہ ناسازگار حالات سے کیسے نمٹا جائے تو یہ اس کا سماج کے تئیں ایک بہت بڑا اور مثبت کردار ہوگا۔ خود کُشی کے واقعات کے پیچھے کوئی واحد وجہ نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ان واقعات کے پیچھے خود کُشی کرنے والے کی ذہنی ناآسودگی اور ڈپریشن کا شکار پایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار خود کُشی کرنے کے پیچھے جینیاتی عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ بعض خاندانوں میں خود کُشی کرنے کی کئی مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ہم ذہنی نا آسودگی کا شکار لوگوں کو اپنائیں اور اُن کی بیماری کو کسی دوسری بیماری کی طرح ہی سمجھنے لگیں اور ساتھ ساتھ متاثرین کو علاج ومعالجہ میسر ہو، تو خود کُشیوں کے رجحان کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر خود کُشی کا رجحان رکھنے والے شخص کو ہمدردی کے ساتھ صرف سُنا جائے تو اس کے خیالات میں مثبت تبدیلی رونما ہوجاتی ہے اور وہ اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ذہنی نا آسودگی کا شکار لوگ پاگل ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے سال 2008ء میں میڈیا کے لئے رہنما اصول جاری کردیئے، جن میں بتایا گیا کہ خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ میں کن باتوں کا دھیان رکھا جانا چاہیے۔ لیکن کسی وجہ سے میڈیا کی جانب سے ان رہنما اصولوں پر مکمل طور عمل در آمد نہیں کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے میڈیا کے لئے جاری کئے گئے گیارہ نکات پر مشتمل اِن رہنما اصولوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود کُشی کی خبروں کو سنسنی خیز نہ بنایا جائے بلکہ لوگوں کو خود کُشی سے روکنے کے لئے انہیں ذہنی بیماریوں سے آگاہ کریں۔ سنسنی خیزیت سے گریز کرنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ سرخی میں خود کشی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ اس کے بدلے یہ بھی لکھا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کی موت واقع ہوگئی۔ مرنے والے کی تصویر استعمال نہ کرنا اور خود کشی کی جگہ اور خود کشی کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلات نہ بتانے جیسے اصول بھی عالمی ادارہ صحت کی میڈیا کے لئے جاری کردہ گائیڈ لائنز میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ متاثرہ کنبے کے جذبات کا خیال رکھنے اور اس نازک وقت پر جب وہ اپنے عزیر کی موت سے نڈھال ہوں، اُن کی اجازت کے بغیر اُن کی تصویریں لینا یا اُن سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے ہیلپ لائن نمبرات جاری کئے ہیں اور ان طبی مراکز کی جانکاری دی ہے، جن کی مدد سے لوگوں میں خود کُشی کے رجحان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ میں مناسب الفاظ کا چناو بہت ہی ضروری ہے۔ خود کُشی کرنے والے شخص کی جانب سے لکھے گئے نوٹ میں لکھی باتیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ خود کُشی کرنے والے نے اس اقدام سے قبل ایک نوٹ لکھا تھا۔ ’وبا‘، ’خود کشی‘ یا ’ناکام کوشش‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ لوگوں کو مینٹل ہیلتھ یعنی ذہنی صحت کے بارے میں جانکاری فراہم کی جائے۔ اس ضمن میں انتباہ کرنے اور ہیلپ لائن نمبرات عام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ کہنے کہ خود کُشی کرنے والے شخص نے اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا پالیا یا اس جیسی دیگر باتیں کہنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس طرح کے جملوں سے وہ لوگ خود کشی کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں، جو ناسازگار حالات سے جوجھ رہے ہوں اور خود کشی کرنا چاہ رہے ہوں۔ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی ستمبر 2019ء میں عالمی ادارہ صحت کی ان گائیڈ لائنز کو توثیق کرتے ہوئے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ ذہنی نا آسودگی کا شکار شخص کی شناخت ظاہر کرنے یا اس کی تصویر وغیرہ شائع کرنے سے گریز کریں۔ لیکن بھارت میں خود کُشیوں کے واقعات کی کوریج اُس تجربے سے کوسوں دور ہے، جو آسٹریلیا جیسے ملکوں میں کیا جارہا ہے۔ آسٹریلیا پہلا ملک تھا، جس نے 1987ء میں اس حوالے سے میڈیا کےلئے گائیڈ لائنز جاری کردیں اور ان پر عمل درآمد کرنا شروع کردیا۔ کئی دیگر ممالک میں بھی خود کشیوں کے حوالے سے میڈیا کوریج کو بہتر بنانے کےلئے کام کیا جارہا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں بھارت میں فی ایک لاکھ آبادی میں 10.2 لوگوں کی خود کشی کی شرح ریکارڈ کی گئی تھی۔ ملک میں ہر سال 1.34 لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں جبکہ سالانہ 1.60 لوگوں کی خود کشی کے واقعات سامنے بھی نہیں آتے ہیں۔ خود کشی کرنے والی کی عمر زیادہ تر چودہ سے انتیس سال کے درمیان کے لوگوں کی ہوتی ہے۔

سُشانت سنگھ راجپوت کی موت میڈیا اور دیگر متعلقین کو یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز پر عمل کریں۔ ویسے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے ہم اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ لوگوں شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ بھارت میں پہلے ہی نوکریاں کھودینے اور دیگر کئی باتوں کی وجہ سے خود کشیوں کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ میڈیا اس رجحان پر قابو پانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

منفی رجحان پر قابو پانے کے لئے میڈیا کو ایک مثبت کردار نبھانے کی ضرورت

اتوار کی بعدِ دوپہر ایک المناک خبر سُننے کو ملی۔ اداکار سُشانت سنگھ راجپوت چل بسے۔ اُن کی لاش مبینہ طور پر ممبئی کے ایک پوش رہائشی علاقے میں واقع اُن کے فلیٹ میں لٹکی ہوئی پائی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اُنہوں نے خود کشی کرلی ہے۔

اس طرح سے چونتیس سالہ اداکار، جس کا مستقبل شاندار ہوسکتا تھا، کی زندگی تمام ہوگئی ہے۔ بہرحال جو کچھ ہوا ہے، اُسے اب بدلا نہیں جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمیں مستقبل میں خود کُشی کے واقعات کے رپورٹنگ کا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کے چند ہی منٹوں بعد ٹیلی ویژن چینلوں نے اس خبر کو دن بھر کی سب سے بڑی خبر کے بطور نشر کیا۔ بجائے اس کے کہ اس خبر کے حوالے سے ایک زندگی گل ہوجانے کے بارے میں بات کی جاتی، نیوز چینلوں نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ سُشانت سنگھ راجپوت نے کس طرح سے خود کشی کرلی۔

بیشتر ٹیلی ویژن چینلز دن بھر اس خبر کو ان تفصیلات کے ساتھ چلایا کہ موصوف نے کس طرح سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔ اُن کی خود کشی کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے ناظرین کو چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات بھی بتائی گئیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ جب اُن کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو کمرے کے اندر اُنہیں کس رنگ کے کپڑے کے ساتھ لٹکا ہوا پایا گیا۔ جب اُن کی میت کو گھر سے باہر نکالا جارہا تھا تو اس منظر کو براہ راست نشر کیا جارہا تھا جبکہ دوسری جانب پٹنہ میں اُن کے گھر پر ٹیلی ویژن چینلز لواحقین کو اس واقعہ پر بات کرنے پر اصرار کر رہی تھیں۔

سب سے بدترین بات یہ دیکھنے کو ملی کہ اس موقعے پر اُن کی خودکُشی کے اسباب کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگائے جارہے تھے۔ جب تک یہ پتہ چلا کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور اس ضمن میں اُن کا علاج و معالجہ بھی چل رہا تھا، لیکن ٹیلی ویژن چینلز پر یہ کہا جارہا تھا کہ اپنے پیشے میں ناکامی کی وجہ سے اُنہوں نے یہ انتہائی اقدام کیا اور کبھی یہ کہا جارہا تھا کہ اپنی گرل فرئنڈ سے علاحدہ ہوجانے کے غم اور مالی مشکلات کی وجہ سے اُنہوں نے خود کُشی کرلی ہوگی۔ توقع کے مطابق دوسرے دن اخبارات نے بھی اس خبر کو پہلے صفحے پر اداکار کی تصویر اور اُن کی زندگی کے خاتمے کی تفصیلات کے ساتھ شائع کیا۔ ظاہر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ’بریکنگ نیوز ‘‘ کی دوڈ میں لگا ہوا ہے اور اخبارات اس طرح کی خبروں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تفصیلات بہم پہنچانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کررہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ خبر نمایاں طور پر جاری کرنے کی ضرورت تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خود کُشی کے واقعات کو اُجاگر کرنا مناسب ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ بادی النظر میں ہی خود کُشی کا واقعہ تھا، اس لئے میڈیا نے اسے خود کُشی بتا کر ہی رپورٹ کیا۔ لیکن یہاں پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خود کُشی کے واقعات کی اس قدر تشہیر کے نتیجے میں کچھ دیگر لوگ اس طرح کا انتہائی اقدام کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں۔ دُنیا بھر میں پچاس سے زیادہ تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ خود کُشی کے واقعات کی نیوز کوریج کے نتیجے میں بعض ایسے لوگ بھی خود کُشی کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں، جو ناموافق حالات سے دوچار ہوں اور جن کے ذہن میں خود کُشی کرنے کے خیالات موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ میڈیا میں خود کُشی کرنے کے ایسے واقعات کی تفصیلات پڑھ کر واقعی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ مشہور ہستیوں کی خود کُشی کی تفصیلات جاننے کے بعد ایسے لوگ سوچنے لگیں گے کہ خود کُشی کرنا ٹھیک ہی ہے۔

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ میڈیا میں خود کُشی کے واقعات کی تشہیر کے نتیجے میں خود کُشی کرنے کے عمومی رجحان میں 2.5 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس رجحان کو ’کاپی کیٹ سیو سائیڈ‘ یعنی خود کُشی کے اقدام کی ’نقل کرنا‘ پکارا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ کسی مشہور ہستی کی خود کُشی کرنے کے نتیجے میں خود کُشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

دوسری جانب اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ خود کُشی کے رجحان کو روکنے میں میڈیا ایک مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی میڈیا خود کُشیوں کے بحران سے نمٹنے میں ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ میڈیا اگر خود کُشی کے واقعات کو سنسنی خیزیت کے ساتھ نشر کرنے سے گریز کرتے ہوئے اور اس کے برعکس یہ بتائے کہ ناسازگار حالات سے کیسے نمٹا جائے تو یہ اس کا سماج کے تئیں ایک بہت بڑا اور مثبت کردار ہوگا۔ خود کُشی کے واقعات کے پیچھے کوئی واحد وجہ نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ان واقعات کے پیچھے خود کُشی کرنے والے کی ذہنی ناآسودگی اور ڈپریشن کا شکار پایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار خود کُشی کرنے کے پیچھے جینیاتی عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ بعض خاندانوں میں خود کُشی کرنے کی کئی مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ہم ذہنی نا آسودگی کا شکار لوگوں کو اپنائیں اور اُن کی بیماری کو کسی دوسری بیماری کی طرح ہی سمجھنے لگیں اور ساتھ ساتھ متاثرین کو علاج ومعالجہ میسر ہو، تو خود کُشیوں کے رجحان کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر خود کُشی کا رجحان رکھنے والے شخص کو ہمدردی کے ساتھ صرف سُنا جائے تو اس کے خیالات میں مثبت تبدیلی رونما ہوجاتی ہے اور وہ اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ذہنی نا آسودگی کا شکار لوگ پاگل ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے سال 2008ء میں میڈیا کے لئے رہنما اصول جاری کردیئے، جن میں بتایا گیا کہ خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ میں کن باتوں کا دھیان رکھا جانا چاہیے۔ لیکن کسی وجہ سے میڈیا کی جانب سے ان رہنما اصولوں پر مکمل طور عمل در آمد نہیں کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے میڈیا کے لئے جاری کئے گئے گیارہ نکات پر مشتمل اِن رہنما اصولوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود کُشی کی خبروں کو سنسنی خیز نہ بنایا جائے بلکہ لوگوں کو خود کُشی سے روکنے کے لئے انہیں ذہنی بیماریوں سے آگاہ کریں۔ سنسنی خیزیت سے گریز کرنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ سرخی میں خود کشی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ اس کے بدلے یہ بھی لکھا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کی موت واقع ہوگئی۔ مرنے والے کی تصویر استعمال نہ کرنا اور خود کشی کی جگہ اور خود کشی کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلات نہ بتانے جیسے اصول بھی عالمی ادارہ صحت کی میڈیا کے لئے جاری کردہ گائیڈ لائنز میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ متاثرہ کنبے کے جذبات کا خیال رکھنے اور اس نازک وقت پر جب وہ اپنے عزیر کی موت سے نڈھال ہوں، اُن کی اجازت کے بغیر اُن کی تصویریں لینا یا اُن سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے ہیلپ لائن نمبرات جاری کئے ہیں اور ان طبی مراکز کی جانکاری دی ہے، جن کی مدد سے لوگوں میں خود کُشی کے رجحان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ خود کُشی کے واقعات کی رپورٹنگ میں مناسب الفاظ کا چناو بہت ہی ضروری ہے۔ خود کُشی کرنے والے شخص کی جانب سے لکھے گئے نوٹ میں لکھی باتیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ خود کُشی کرنے والے نے اس اقدام سے قبل ایک نوٹ لکھا تھا۔ ’وبا‘، ’خود کشی‘ یا ’ناکام کوشش‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ لوگوں کو مینٹل ہیلتھ یعنی ذہنی صحت کے بارے میں جانکاری فراہم کی جائے۔ اس ضمن میں انتباہ کرنے اور ہیلپ لائن نمبرات عام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ کہنے کہ خود کُشی کرنے والے شخص نے اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا پالیا یا اس جیسی دیگر باتیں کہنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس طرح کے جملوں سے وہ لوگ خود کشی کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں، جو ناسازگار حالات سے جوجھ رہے ہوں اور خود کشی کرنا چاہ رہے ہوں۔ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی ستمبر 2019ء میں عالمی ادارہ صحت کی ان گائیڈ لائنز کو توثیق کرتے ہوئے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ ذہنی نا آسودگی کا شکار شخص کی شناخت ظاہر کرنے یا اس کی تصویر وغیرہ شائع کرنے سے گریز کریں۔ لیکن بھارت میں خود کُشیوں کے واقعات کی کوریج اُس تجربے سے کوسوں دور ہے، جو آسٹریلیا جیسے ملکوں میں کیا جارہا ہے۔ آسٹریلیا پہلا ملک تھا، جس نے 1987ء میں اس حوالے سے میڈیا کےلئے گائیڈ لائنز جاری کردیں اور ان پر عمل درآمد کرنا شروع کردیا۔ کئی دیگر ممالک میں بھی خود کشیوں کے حوالے سے میڈیا کوریج کو بہتر بنانے کےلئے کام کیا جارہا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں بھارت میں فی ایک لاکھ آبادی میں 10.2 لوگوں کی خود کشی کی شرح ریکارڈ کی گئی تھی۔ ملک میں ہر سال 1.34 لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں جبکہ سالانہ 1.60 لوگوں کی خود کشی کے واقعات سامنے بھی نہیں آتے ہیں۔ خود کشی کرنے والی کی عمر زیادہ تر چودہ سے انتیس سال کے درمیان کے لوگوں کی ہوتی ہے۔

سُشانت سنگھ راجپوت کی موت میڈیا اور دیگر متعلقین کو یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز پر عمل کریں۔ ویسے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے ہم اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ لوگوں شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ بھارت میں پہلے ہی نوکریاں کھودینے اور دیگر کئی باتوں کی وجہ سے خود کشیوں کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ میڈیا اس رجحان پر قابو پانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.