راحت اندوری اپنی باکمال شاعری کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔ ایک طرف ان کا شعری اسلوب نہایت دلکش ہے تو دوسری طرف وہ جس انداز سے اشعار پڑھتے ہیں وہ بھی نہایت منفرد ہے اور یہی وہ چیزیں جس نے انہیں دیگر شعراء سے منفرد بنایا تھا اور ان کے اس منفرد انداز نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔
جدید غزل میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے والے راحت اندوری کا اصل میدان غزل ہے اور انہوں نے ندرت خیال اورنکتہ آفرینی کی وجہ سے غزل کو نئے معانی دیے ہیں۔ان کی غزل میں شعری طرز احساس اور جدید طرز احساس کا اتنا cملتا ہے کہ قاری کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکلتی ہے۔
راحت اندوری کی شاعری اس دور میں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے اور مشاعروں کو وہ اپنی توجہ کا مرکز بنانے لیا کرتے تھے۔
راحت اندوری مشاعروں کی کا میا بی کی ضمانت سمجھے جا تے تھے۔ان کے ما ئک سے ہٹتے ہی مشاعرہ گو یا ختم ہو جا تا تھا۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی والی کیفیت پیدا ہو جا تی تھی۔ان کی گھن گرج کے بعد مشاعرہ گاہ کا پنڈال سونا پڑ جا تا تھا۔
عوام و خاص اور دیگر شعراء میں ان کی منفرد حیثیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں مشاعرے میں نیا مزاج پیدا کیا۔ سامع اور شاعر کے بیچ فا صلے کو ڈھا دیا۔گہرا تال میل فروغ دیا۔سہل اور آسان زبان میں عمیق نکات پیش کئے۔اچھے اچھوں کی بو لتی بند کر دی۔ترنم کے شاعروں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔
بشیر بدر کی آواز کے جادو کو زا ئل کرنے میں را حت اندوری کا ہاتھ رہا ہے۔راحت کی مسائلی شاعری کے آگے بشیر بدر کی سبک رو مانی شاعری بجھنے لگی۔لوگ سیاسی اشاروں کناؤں سے لطف اندوز ہو نے لگے۔
را حت عصری چیرہ دستیوں کو بے نقاب کر تے تھے۔شعور و ادراک کے چراغ جلا تے تھے۔ان کا تخاطب تیکھا ہو تا تھا۔وہ خفتہ ضمیر انسانی کو جھنجوڑتے تھے۔سماج کو آئینہ دکھا تے تھے۔ان کی پرواز تخیل لامکاں ہو تی تھی۔وہ عزم و حوصلہ کے امین بن جا تے تھے۔
ان کی شاعری تعفن طبع کے لئے نہیں زمانے کو پہچاننے کے لئے ہے۔وہ نا صح بن کر نہیں دوست بن کر بات کرتے تھے ان کے خلوص اور درد مندی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہ غم کے اندھیرے میں ہمت کا اجالا با نٹتے تھے۔ان کی زنبیل میں دکھوں کا مداوا اور نسخہ کیمیا رہتاہے