پوٹن نے بدھ کو روس کے شہر سوچی میں آسٹریا کے صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے کہا کہ 2015کے جوہری معاہدے سے ممالک آہستہ آہستہ الگ ہو رہے ہیں، لیکن وہ ایران کے رہنماؤں کو مشورہ دیتے ہیں کہ امریکہ کی پرواہ کیے بغیر وہ اس تاریخی جوہری معاہدے سے منسلک رہیں۔
روسی صدر نے کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایران جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد یوروپ نے اس معاہدے کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا اور اگر اب ایران جوہری معاہدے کے تحت مشترکہ مجموعی ایکشن پلان (جے سی پی اواے) کے تحت کیے گئے وعدوں سے خود کو الگ کر لیتا ہے تو اسے سبھی مجرم ٹہرائیں گے۔
اس سے پہلے ایران نے بدھ کو سرکاری طور پر جوہری معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایران کی جوہری توانائی تنظیم نے اس بات کی تصدیق کی تھی۔
پوٹن نے کہا کہ روس اس جوہری معاہدے میں ثالثی کر کے خوش ہے۔ اور مستقبل میں بھی مدد کرے گا۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سال مئی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران جوہری معاہدے سے اپنے ملک کے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اس جوہری معاہدے کی دفعات لاگو کرنے کو لے کر شکوک و شبہات کے حالات بنے ہوئے ہیں۔
سال 2015 میں ایران نے امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت ایران نے اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔