بھارت میں ہر برس اوسطا 27 لاکھ ٹی بی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ 2018 میں 4.5 لاکھ افراد ٹی بی سے مر گئے تھے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) مردم شماری کے مطابق، ٹی بی سے ہونے والی اموات کی فہرست میں بھارت اول نمبر پر ہے اور آنے والے برسوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
بھارت کے مقابلے میں چین (9 فیصد)، انڈونیشیا (8 فیصد) اور فلپائن (6 فیصد) میں ٹی بی کی شرح اموات کم ہے۔
حال ہی میں جاری کردہ ٹی بی انڈیا رپورٹ 2019 میں گجرات، کرناٹک، مہاراشٹر، دہلی اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہے۔ گزشتہ برس تلنگانہ میں 52 ہزار نئے ٹی بی کیسز سامنے آئے تھے جبکہ آندھرا پردیش نے اصل اعداد و شمار کو مسخ کیا تھا۔
تلگو ریاستوں میں حالت تشویشناک ہے۔ اگرچہ اشتہارات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹی بی کا پتہ لگانے اور روکنے کے لئے خاطر خواہ فنڈز اور سہولیات مہیا کی گئیں ہیں لیکن یہ بیماری جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ اگر ابتداء میں ہی اس کا پتہ لگے اور صحیح طریقے سے علاج کیا جائے تو ٹی بی کا علاج ہوسکتا ہے۔
سنہ 1962 میں قومی ٹی بی کنٹرول پروگرام شروع کیا تھا اور بھارت سے ٹی بی کو ختم کرنے کے لیے اس میں کئی بار تبدیلی بھی لائی گئی۔
ڈبلیو ایچ او 2030 تک دنیا سے ٹی بی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ایک بین الاقوامی ماہر کمیٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ زیادہ فنڈز کی مختص اور فنڈز کا صحیح استعمال کرکے 2045 تک ٹی بی کا دنیا سے صفایا کرنا ممکن ہے۔
بھارتی حکومت کچھ اقدامات اٹھا کر اس بیماری کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔گزشتہ برس بھارت میں 1.5 لاکھ ٹی بی کے کیسز سرکاری طور پر رپورٹ نہیں کیے گیے تھے۔
بھارتی حکومت نے محض 4 ہزار کڑور اس بیماری پر قابو پانے کے لیے مختص کیے ہے۔ ٹی بی کے لیے فنڈز میں مفت ادویات کی تقسیم، معاشرتی مراعات اور دیگر امدادی اقدامات شامل ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے خود حساب لگایا ہے کہ ٹی بی کی وجہ سے قوم کو سالانہ 20 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
طبی اخراجات اور حکومت کو ہونے والا نقصان اس مسئلے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس بیماری سے ضائع ہونے والی جانوں کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹز میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ٹی بی کی بروقت تشخیص نے 2000-2017 کے دوران دنیا بھر میں 5.4 کرور ٹی بی سے ہونے والی اموات کو روک لیا۔
چار برس قبل بھارت میں ہر 4 لاکھ آبادی کے لئے 200 ٹی بی کے معاملے رپورٹ ہوئے تھے۔ قومی اسٹریٹجک پلان کا ہدف 2020 تک تعداد کو کم کرکے 142 اور 2023 تک 77 کر دینا ہے۔ لیکن ٹی بی کو روکنے کے لیے صرف حکمت عملی ہی کافی نہیں ہے۔
صحت کی نگہداشت تک رسائی اور معیار کے لحاظ سے 195 ممالک میں بھارت 145 ویں نمبر پر ہے۔
اس بیماری کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے لیے دو طرفہ منصوبے پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی اور گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے نمٹنے کے حل تلاش کیے جانے چاہیے۔
صحیح اقدامات سے بھارت کو 2025 تک ٹی بی سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔