خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عراق کے دارالحکومت بغداد میں یکم اکتوبر سے شیعہ اکثریت اور بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے نظام حکمرانی کی تجدید کا مطالبہ کررہے ہیں، مذکورہ احتجاجی لہر عراق میں کئی دہائیوں کے دوران سب سے مقبول اور ہلاکت خیز ہے۔
اس خونیں تصادم نے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور وائٹ ہاؤس میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور ان کی جانب سے بغداد پر ’مظاہرین کے خلاف تشدد کو روکنے‘ اور انتخابی اصلاحات منظور کرنے کے لیے زور دیا گیا۔
کئی ہفتوں سے جاری مفلوج نظام زندگی کے باعث عراق کے اعلیٰ رہنما نظام کو برقرار رکھنے پر رضامند نظر آتے ہیں لیکن عراق میں اقوام متحدہ (یو این اے ایم آئی) کے عہدیداروں نے نظام میں تبدیلیوں کے لیے زور دیا ہے۔
ان تبدیلیوں میں 2 ہفتوں میں انتخابی اصلاحات، حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے ذمہ داروں اور بدعنوان عہدیداروں کے خلاف کارروائی اور انسداد بدعنوانی قانون کی منظوری شامل ہے۔
اس سلسلے میں یو این اے ایم آئی کے سربراہ چیف جینائین ہینیس پلشرٹ نے ملک کے شیعہ رہنما آیت اللہ عظمیٰ علی سیستانی سے نجف میں ملاقات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عراق میں شعیہ مذہبی قوت (مرجیعت) نے اس بات پر زورد دیا ہے کہ 'پر امن مظاہرین اپنے مطالبوں کے جواب میں اطمینان بخش اصلاحات کے بغیر گھر نہیں جاسکتے'۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'مرجیعت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سیاسی قوتیں یہ اصلاحات کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں'، جینائین ہینیس نے واضح کئے بغیر خبردار کیا کہ 'اگر 3 ادارے- مقننہ، عدلیہ اور حکومت فیصلہ کن اصلاحات کرنے کے قابل یا اس پر راضی نہیں ہوئے تو ایک مختلف نقطہ نظر سے سوچنے کا طریقہ ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ 'خوف اور غصے کی فضا قائم ہوچکی ہے' اور یہ کہ انسانی حقوق کونسل عراق میں حقوق کے ریکارڈ کا متواترجائزہ لینے کے لیے اجلاس کرے گی۔
دوسری جانب ایران کے پاسداران انقلاب کے غیر ملکی آپریشن کے سربراہ میجر جنرل قاسم کی معاونت سے سیاسی اشرافیہ کے درمیان پائی جانے والے ابتدائی اختلافات ختم ہو کر اتفاق رائے ہوگیا۔
اس سلسلے میں ہونے والے معاہدے میں وسیع تر نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اصلاحات کے تبادلوں کا متواتر سلسلہ بھی شامل تھا۔
مذکورہ تجاویز مکمل طور پر مظاہرین کے مطالبوں کا احاطہ نہیں کرتیں جو بدعنوان نظام حکومت کی مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں۔