قومی دارالحکومت دہلی میں جامع مسجد کے باہر نماز جمعہ کے بعد مظاہرے کیے گئے۔
مظاہرین نے حکومت سے ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ریاست جھارکھنڈ میں مرکزی مجلس علما کی طرف سے کالی پٹی باندھ کراحتجاج کر رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں آج یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔
مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ میں ناخدا مسجد اور ٹیپو سلطان مسجد، مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں تاج المساجد کے باہر مظاہرے کیے گئے۔
اترپردیش کے لکھنؤ، سہارنپور اور میرٹھ میں بھی نماز جمعہ کے بعد مظاہرہے کیے گئے۔
نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد ملک بھر میں ہجومی تشدد کے کئی درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
ملک بھر میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران 297 نفرت پر مبنی جرائم انجام دیے گئے، جن میں 98 ہلاک اور 722 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
گزشتہ روز جھارکھنڈ کے سرائے کیلا کھرسواں میں تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کا سانحہ پیش آیا، جس میں ان کی جان چلی گئی، لیکن ریاست جھارکھنڈ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
نیوز ویب سائٹ فیکٹ چیکر کے مطابق رواں برس جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے کل 11 واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں 6 افراد ہلاک اور 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف سنہ 2015 میں ہی ماب لنچنگ کے 121 واقعات جانور چوری کرنے یا گئو ذبیحہ کے نام پر رونما ہوئے، جب کہ سنہ 2012 سے 2014 تک ہجومی تشدد کے صرف چھ واقعات پیش آئے۔
سنہ 2009 سے لے کر 2019 تک ہونے والے ہجومی تشدد کے 59 فیصد واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس میں 28 واقعات جانور چوری کرنے اور اسے ذبح کرنے کے نام پر انجام دیے گئے ہیں۔
ان میں 66 فیصد واقعات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں انجام دیے گئے ہیں اور صرف 16 فیصد واقعات کانگریس کے زیر اقتدار ریاستوں میں انجام دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ریاست جھارکھنڈ کے ضلع کھرسواں میں تبریز انصاری پر جانور چوری کرنے کے نام پر حملہ کیا گیا تھا۔ جسے ایک کھمبے سے باندھ کر کئی گھنٹوں تک مارا پیٹا گیا اور پھر اسے پولیس کے حوالہ کردیا گیا۔
اس واقعہ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاؤں کے باشندے تبریز کو ' جئے شری رام اور جئے ہنومان' کے نعرے لگانے کے لیے مجبو کررہے ہیں۔
سنیچر کے روز تبریز کی موت سے اسپتال میں لانے سے ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک بھر میں اس حملے کی مذمت کی جارہی ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق اس معاملے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور دو پولیس افسران کو معطل کیا گیا ہے۔
اس حادثے کی تفتیش کے لیے جھارکھنڈ کی حکومت کی جانب سے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔
مقتول تبریز کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ' خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور اس معاملے میں غفلت برتنے والے ڈاکٹرز اور پولیس افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
اہلخانہ کا الزام ہے کہ'ان کے متعدد مرتبہ گزارش کرنے کے باوجود پولیس والوں نے تبریز کو وقت پر طبی امداد نہیں پہنچائی، جس کے سبب اسپتال میں داخل کرنے سے قبل ہی تبریز کی موت واقع ہوگئی۔