میرٹھ میں پولیس اور بدمعاشوں کے مابین ہونے والے تصادم پر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں اور عبدالقادر کے انکاؤنٹر کو فرضی بتایا جا رہا ہے۔
بھارتی کسان یونین کے ضلع نائب صدر رویندر کا کہنا ہے کہ میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں 28 تاریخ کو گولی چلی تھی جس میں عبدالقادر کا نام پولیس نے شامل کیا تھا۔
رویند کے مطابق عبدالقادر کے اہل خانہ نے اسے سول لائن پولیس اسٹیشن میں پولیس کے حوالے کیا تھا۔
رویندرنے بتایا کہ شام کو میڈیکل تھانہ کی پولیس اسے کہیں لے گئی اسی دوران اطلاع ملی عبدالقادر نامی شخص کا پولیس نے انکاؤنٹر کیا ہے۔
رویندر کا کہنا ہے کہ جب عبدالقادر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا تو پھر پولیس سے تصادم کیسے ہوسکتا ہے اور 20 ہزار کے انعام کا اعلان بھی پولیس نے کردیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انکاؤنٹر سراسر غلط ہے اور غلط ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ انکاؤنٹر میں ملوث سبھی پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے اور ان پر کارروائی کی جائے مزید یونیورسٹی کے واقعے کے بھی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے طلباء احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں۔ اسی بابت میں ایس پی اویناش پانڈے سے ملاقات کیے ہیں۔ ایس پی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ طلبا کا استحصال نہیں ہوگا۔ پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوگی اور بے قصور کو شامل نہیں کیا جا ئے گا۔
بتا دیں کہ 29 اگست کو پولیس نے عبدالقادر نامی شخص کا انکاؤنٹر کیا تھا جس میں پولیس نے دعوی کیا تھا کہ عبدالقادر دو کیسز میں مفرور تھا جس کی بنیاد پر پولیس اسے گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن پولیس کو دیکھتے ہی عبدالقادر نے فائرنگ کردی۔ جو ابی فائرنگ میں عبدالقادر کے پیر میں گولی لگی جس سے وہ زخمی ہو گیا تھا۔