کسی بھی دوسرے انتخابی سال کی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن کے مابین ہونے والی پہلی بحث اس انتخابی دوڑ میں فیصلہ کن ہوسکتی ہے۔
اس مباحثے میں صدر سے توقع ہے کہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ بحث کے دوران دونوں امیدوار وبائی بیماری کے پیش نظر پوڈیم سے دور رہیں گے اور روایتی مصافحہ بھی نہیں کریں گے۔
امریکی صدارتی انتخابات 2020 کے تقریر کے شوروغل کو قابو کرنا مشکل ہوگا، وہیں کورونا نے سکولز اور کاروباری اداروں کو بند کردیا ہے۔
مہم کے دوران تو امیدواروں کی ٹیم منظم طریقے کے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی ہے لیکن مباحثے کے اسٹیج پر پوری مہم امیدوار کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جو سب سے زیادہ پرخطر ہوتا ہے۔
ایسا مانا جارہا ہے کہ ان دونوں امیدواروں کے مابین ایجنڈے میں تین کلیدی ایشور شامل ہیں، اس دوران کوئی تشہیری وقفہ نہیں ہوگا۔
ٹرمپ کی خاصیت سے لوگ آگاہ ہیں، وہ عوامی سطح پر لوگوں کو مرعوب کرلینے کی تلاش میں بھی رہتے ہیں اور اس کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ان کی خوبیوں اور کمزوریوں سے بہت سے امریکی آگاہ ہیں۔ اس لیے حالیہ صدارتی مباحثے کا اصل مرکز جوبائیڈن ہوں گے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اور وہ کس طرح سے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔
بائیڈن کا کام ہوگا کہ وہ مسلسل طور پر بہتر پرفارمنس دیں، انھیں کم ازکم اتنے امریکیوں کے ساتھ کی ضرورت ہوگی کہ وہ نومبر میں کامیابی حاصل کریں اور عوام اول آفس میں ان کے جانے پر اعتماد محسوس کریں۔
انھیں اپنی عمر اور ذہانت کے حوالے سے لوگوں کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا، اس کے علاوہ انھیں ماضی کے برعکس زبانی دعوؤں سے پرہیز کرنا ہوگا جن کی وجہ سے لوگ ان سے بدظن ہوئے۔
ڈیموکریٹ کے حامی والیس کہتے ہیں کہ یہ ایک سنجیدہ بحث ہے کیونکہ یہ ہزاروں لوگوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ کس کو منتخب کرنے جا رہے ہیں۔
آخر میں این بی سی وائٹ ہاؤس کی نامہ نگار کرسٹین والکر مباحثے کو سمیٹیں گی۔