ETV Bharat / bharat

دَل بدلی کی سیاست - دَل بدلی کی سیاست

اگر بھارت کے سیاسی پارٹیوں میں دل بدلی کا نظام اور سیاست قائم رہا تو جمہوریت کو نقصان ہوتا رہے گا، جس کی تازہ مثال مدھیہ پردیش کی سیاسی بحران ہے۔

دَل بدلی کی سیاست
دَل بدلی کی سیاست
author img

By

Published : Mar 24, 2020, 9:27 PM IST

اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرتے ہوئے بے وفائی کرنے کو ہمارے یہاں سیاسی تدبر قرار دیا جاتا ہے اور اس کی سراہنا کی جاتی ہے۔ سادہ اکثریت سے بر سر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کا پانچ سال تک ثابت قدم نہ رہ پانا در اصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا تصور صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔

گزشتہ سال کرناٹک میں کمارا سوامی کی حکومت گرنے کے بعد اب مدھیہ پردیس میں کمل ناتھ کی حکومت گرنے کی باری ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کو ’’ ایک کے بدلے تین وکٹ گرانے ‘‘ جیسی دھمکیوں کے بیچ جوتیرآدتیہ نے اپنے ممبران اسمبلی سمیت بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔

کانگریس کو جب پندرہ سال تک انتظار کرنے کے بعد مدھیہ پر دیش میں بر سر اقتدار آنے کا موقعہ ملا، تو سونیا گاندھی نے سینیارٹی کی بنیاد پر کمل ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں اپنی رائے دی۔ اس فیصلے کو جوتیر آدتیہ نے قبول کیا۔ لیکن اُنہیں پردیش کانگریس کا صدر نہ بنائے جانے اور راجیہ سبھا کی رُکنیت نہ دینے کے فیصلے سے وہ مایوس ہوگئے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ گروہی سیاست کے نتیجے میں اب کمل ناتھ کی حکومت اور اس کی قوت کو ایک چیلنج درپیش ہے۔جوتیر آدتیہ سندھیا کے ہم خیال اراکین اسمبلی مدھیہ پر دیش چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں چلے گئے ہیں۔ اس سے پارٹی اور اسکے ممبران اسمبلی کے درمیان خراب رشتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ منتخب نمائندوں کے نظریات اور وفاداری کے اوصاف کی کتنی کمزوری ہے ۔ اس کی وجہ سے ہی جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ دل بدلی کا رجحان اب تمام ریاستوں میں پھیل گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ رجحان یہاں طویل عرصے تک رہے گا۔سابق لوک سبھا سپیکر ابی رائے نے کہا تھا، ’’ اختلاف رائے کا اظہار ایک آزاد سماج کی علامت ہے لیکن یہ اختلاف رائے بدنیتی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اختلاف رائے اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ بلکہ یہ بڑی بیماریوں کی ایک علامت ہے۔ بیماری کو ٹھیک کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں میں مکمل اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔کیا کوئی سیاسی جماعت انتخابات لڑنے کیلئے اُمیدواروں کاچناؤ ان کے عہد و پیمان اور ان میں جوابدہی کے جذبے کو دیکھ کر کرتی ہے۔عمومی طور پر سیاسی جماتیں ذات اور مذہب دیکھ کر اُمید وار چنتے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور اُمیدواروں کا چاہے مجرمانہ پس منظر ہی کیوں نہ ہو، ان دنوں انہیں ہی الیکشن لڑنے کیلئے مناسب اُمیدوار سمجھا جاتا ہے۔ اسی پس منظر کو دیکھ کر انہیں الیکشن کے لئے پارٹی منتخب کرتی ہے اور یہ لوگ بھی موقعہ دیکھ کر کود پڑتے ہیں۔

منحرفین کو استعفیٰ دینے پر اکسا کر بی جے پی مخلوط سرکاریں گرانے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ باغی اُمید وار جب ضمنی انتخابات میں دوبارہ جیت جاتے ہیں تو اُنہیں وزارتیں تفویض کی جاتی ہیں۔ سال 1981 میں جب راجکوٹ میونسپل کارپوریشن کے بی جے پی کے کونسلر نے الیکشن جیتنے کے بعد کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تو اس پر بی جے پی کے سینئر لیڈر چمن لال شکلا نے انیس دن تک بطور احتجاج بھوک ہڑتال کی۔اس کے نتیجے میں کونسلر کو سیاست سے ہی کنارہ کشی کرنی پڑی تھی ۔

سال 1998میں جب اتر پردیش میں گورنر رمیش بھاندری نے کلیان سنگھ کی حکومت گرانے اور منحرفین پر مشتمل حکومت قائم کرانے میں تعاون دیا تو واجپائی نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ان جیسی مثالیں جمہوریت کے حق میں ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا یہ امتیازی رویہ ختم ہوتا گیااور اس کے بدلے اس میں ہر ممکن طریقے سے اقتدارحاصل کرنے کا رجحان پیدا ہوگیا۔

سال 1985ء کے دل بدلی قانون میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ ا گر دل بدلی کو قابو نہیں کیا گیا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت کی بنیادوں کو نقصان پہنچے گا۔ سال 1957ء سے لیکر 1967تک دل بدلی کے 542معاملات ہوئے ۔ جن میں کانگریس پارٹی نے 419دل بدلوں کو قبول کیا۔ سال 1967سے 1983ء تک دل بدلی کے 2700معاملات دیکھنے کو ملے ۔ ان دل بدلنے والوں میں سے 212کو وزارتیں ملیں اور ان میں پندرہ وزیر اعلیٰ بن گئے ۔

سابق دل بدلی قانون کے نتیجے میں انفرادی دل بدلی پر روک تو لگ گئی لیکن اس کے نتیجے میں گروہی دل بدلی کو عروج ملا۔تاہم سال 2004میں آئین کی 91ویں ترمیم میں کہا گیا کہ دو تہائی اراکین کی دل بدلی کو پارٹی میں دو پھاڑ ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس ترمیم کے بعد فیصلے کا حتمی اختیار اسپیکرکو مل گیا ہے۔ اب استعفیٰ دینے کے بعد نئی پارٹی کے انتخابی نشان کے تحت الیکشن لڑ کر وزارتیں حاصل کرنا نیا طریقہ کار بنتا جارہا ہے۔

امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک جہاں مضبوط سیاسی نظام موجود ہے وہاں دل بدلی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ جان میئر کی حکومت کا سادہ اکثریت کے بل پر اپنی معیاد پورا کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی نظام کتنا مضبوط ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کرناٹک کے دل بدلی کیس کا جائزہ لیتے ہوئے تنازعہ کا حل کے لیے ایک میکانزم کا تذکرہ کیا ۔ اس نے بتایا کہ جب تک سیاسی جماعتیں تنگ نظری کا شکار رہیں گی ، دل بدلی کا رجحان قائم رہے گا اور اسکے نتیجے میں جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔

اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرتے ہوئے بے وفائی کرنے کو ہمارے یہاں سیاسی تدبر قرار دیا جاتا ہے اور اس کی سراہنا کی جاتی ہے۔ سادہ اکثریت سے بر سر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کا پانچ سال تک ثابت قدم نہ رہ پانا در اصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا تصور صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔

گزشتہ سال کرناٹک میں کمارا سوامی کی حکومت گرنے کے بعد اب مدھیہ پردیس میں کمل ناتھ کی حکومت گرنے کی باری ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کو ’’ ایک کے بدلے تین وکٹ گرانے ‘‘ جیسی دھمکیوں کے بیچ جوتیرآدتیہ نے اپنے ممبران اسمبلی سمیت بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔

کانگریس کو جب پندرہ سال تک انتظار کرنے کے بعد مدھیہ پر دیش میں بر سر اقتدار آنے کا موقعہ ملا، تو سونیا گاندھی نے سینیارٹی کی بنیاد پر کمل ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں اپنی رائے دی۔ اس فیصلے کو جوتیر آدتیہ نے قبول کیا۔ لیکن اُنہیں پردیش کانگریس کا صدر نہ بنائے جانے اور راجیہ سبھا کی رُکنیت نہ دینے کے فیصلے سے وہ مایوس ہوگئے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ گروہی سیاست کے نتیجے میں اب کمل ناتھ کی حکومت اور اس کی قوت کو ایک چیلنج درپیش ہے۔جوتیر آدتیہ سندھیا کے ہم خیال اراکین اسمبلی مدھیہ پر دیش چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں چلے گئے ہیں۔ اس سے پارٹی اور اسکے ممبران اسمبلی کے درمیان خراب رشتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ منتخب نمائندوں کے نظریات اور وفاداری کے اوصاف کی کتنی کمزوری ہے ۔ اس کی وجہ سے ہی جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ دل بدلی کا رجحان اب تمام ریاستوں میں پھیل گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ رجحان یہاں طویل عرصے تک رہے گا۔سابق لوک سبھا سپیکر ابی رائے نے کہا تھا، ’’ اختلاف رائے کا اظہار ایک آزاد سماج کی علامت ہے لیکن یہ اختلاف رائے بدنیتی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اختلاف رائے اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ بلکہ یہ بڑی بیماریوں کی ایک علامت ہے۔ بیماری کو ٹھیک کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں میں مکمل اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔کیا کوئی سیاسی جماعت انتخابات لڑنے کیلئے اُمیدواروں کاچناؤ ان کے عہد و پیمان اور ان میں جوابدہی کے جذبے کو دیکھ کر کرتی ہے۔عمومی طور پر سیاسی جماتیں ذات اور مذہب دیکھ کر اُمید وار چنتے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور اُمیدواروں کا چاہے مجرمانہ پس منظر ہی کیوں نہ ہو، ان دنوں انہیں ہی الیکشن لڑنے کیلئے مناسب اُمیدوار سمجھا جاتا ہے۔ اسی پس منظر کو دیکھ کر انہیں الیکشن کے لئے پارٹی منتخب کرتی ہے اور یہ لوگ بھی موقعہ دیکھ کر کود پڑتے ہیں۔

منحرفین کو استعفیٰ دینے پر اکسا کر بی جے پی مخلوط سرکاریں گرانے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ باغی اُمید وار جب ضمنی انتخابات میں دوبارہ جیت جاتے ہیں تو اُنہیں وزارتیں تفویض کی جاتی ہیں۔ سال 1981 میں جب راجکوٹ میونسپل کارپوریشن کے بی جے پی کے کونسلر نے الیکشن جیتنے کے بعد کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تو اس پر بی جے پی کے سینئر لیڈر چمن لال شکلا نے انیس دن تک بطور احتجاج بھوک ہڑتال کی۔اس کے نتیجے میں کونسلر کو سیاست سے ہی کنارہ کشی کرنی پڑی تھی ۔

سال 1998میں جب اتر پردیش میں گورنر رمیش بھاندری نے کلیان سنگھ کی حکومت گرانے اور منحرفین پر مشتمل حکومت قائم کرانے میں تعاون دیا تو واجپائی نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ان جیسی مثالیں جمہوریت کے حق میں ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا یہ امتیازی رویہ ختم ہوتا گیااور اس کے بدلے اس میں ہر ممکن طریقے سے اقتدارحاصل کرنے کا رجحان پیدا ہوگیا۔

سال 1985ء کے دل بدلی قانون میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ ا گر دل بدلی کو قابو نہیں کیا گیا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت کی بنیادوں کو نقصان پہنچے گا۔ سال 1957ء سے لیکر 1967تک دل بدلی کے 542معاملات ہوئے ۔ جن میں کانگریس پارٹی نے 419دل بدلوں کو قبول کیا۔ سال 1967سے 1983ء تک دل بدلی کے 2700معاملات دیکھنے کو ملے ۔ ان دل بدلنے والوں میں سے 212کو وزارتیں ملیں اور ان میں پندرہ وزیر اعلیٰ بن گئے ۔

سابق دل بدلی قانون کے نتیجے میں انفرادی دل بدلی پر روک تو لگ گئی لیکن اس کے نتیجے میں گروہی دل بدلی کو عروج ملا۔تاہم سال 2004میں آئین کی 91ویں ترمیم میں کہا گیا کہ دو تہائی اراکین کی دل بدلی کو پارٹی میں دو پھاڑ ہونا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس ترمیم کے بعد فیصلے کا حتمی اختیار اسپیکرکو مل گیا ہے۔ اب استعفیٰ دینے کے بعد نئی پارٹی کے انتخابی نشان کے تحت الیکشن لڑ کر وزارتیں حاصل کرنا نیا طریقہ کار بنتا جارہا ہے۔

امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک جہاں مضبوط سیاسی نظام موجود ہے وہاں دل بدلی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ جان میئر کی حکومت کا سادہ اکثریت کے بل پر اپنی معیاد پورا کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی نظام کتنا مضبوط ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کرناٹک کے دل بدلی کیس کا جائزہ لیتے ہوئے تنازعہ کا حل کے لیے ایک میکانزم کا تذکرہ کیا ۔ اس نے بتایا کہ جب تک سیاسی جماعتیں تنگ نظری کا شکار رہیں گی ، دل بدلی کا رجحان قائم رہے گا اور اسکے نتیجے میں جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.