تین ہفتوں کے لئے گھر میں بیٹھنا کسی کے لئے بھی ایک خوشگوار بات نہیں ہے۔ یہ صورتحال سب سے زیادہ پریشان کن چھوٹے اور نوعمر بچوں کے لئے ہے کیونکہ وہ اسکول، ٹیوشن یا اپنے دوستوں سے ملنے جلنے کے سلسلے میں عمومی طور پر اپنے گھر سے باہر جانے کے عادی ہوتے ہیں۔ چونکہ ان دنوں اسکول بند ہیں اور بچے گھر سے باہر نہیں جا سکتے ہیں، اس لئے ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ وہ بے قراری، تناؤ اور جھنجھلاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے والدین پراپنے بچوں کے تئیں مزید ذمہ داری آن پڑی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ان حالات میں پیار و محبت اور صبر کے ساتھ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کریں ۔ موجودہ صورتحال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ والدین کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ ان کے پاس اپنے نوعمر بچوں کے قریب رہنے کے لئے کافی وقت میسر ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے والدین اپنے بچوں کو اپنی محبت کا احساس دلاسکتے ہیں اور ان میں احساس تحفظ اجاگر کرسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور کئی دیگر عالمی تنظیموں نے اس ضمن میں والدین کے لئے متعدد تجاویز پیش کی ہیں۔ ان تجاویز پر عمل پیرا ہو کر والدین ان مشکل حالات میں اپنے بچوں کو ان کی اہمیت اور اُن کے تئیں اپنے پیار کا احساس دلا سکیں گے ۔ان تجاویز میں والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے وقت مختص کریں ۔ والدین بچوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ سماجی دوریاں بنائے رکھنا ضروری بات کیوں ہے، وہ ان حالات میں کیسا محسوس کررہے ہیں۔والدین بچوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ان حالات میں اپنا وقت کس طرح سے گزارنا پسند کریں گے اور کیا کچھ کرنا چاہیں گے ۔ والدین اپنے ننھے بچوں کے لئے گیت گا سکتے ہیں۔ ان کے لئے کہانیوں کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔جبکہ وہ اپنے عمر بچوں کے ساتھ ان مختلف کھیلوں یا ٹی وی پروگراموں کے بارے میں بات کرسکتے ہیں۔ ان دنوں گھروں کے اندر مل جل کر ورزش کرنا ایک دلچسپ اور وقت گزاری کا کام ہوسکتا ہے۔ٹی وی اور موبائل فون کے ساتھ بھی وقت گزاری کی جاسکتی ہے۔کتابیں پڑھنا اور تصویریں دیکھنا یا ڈانس کرنا جیسے کام بھی خوشگوار ثابت ہوسکتا ہے۔ والدین کے ساتھ مل کر بچے گھر کی صفائی اور کھانے پکانے کے کام میں دلچسپی پیدا ہوسکتی ہے۔ تاہم اس سارے کام کے دوران والدین کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ بچوں کو پڑھانا اور ہوم ورک کرانا سب سے اہم کام ہے۔
حالانکہ والدین کے لئے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ایک مشکل کام ہے ۔ عمومی طور پر والدین اپنے بچوں سے ’ یہ مت کرو، وہ کرو‘ جیسی باتیں کہتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھار والدین بچوں پر چیختے چلاتے بھی ہیں۔لیکن موجودہ حالات میں بہتر ہے کہ والدین اپنے بچوں کے تئیں مثبت رویہ اختیار کریں ۔ان کی تعریفیں کریں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔بچوں کی تعریفیں کرنے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس طرح سے بچوں میں یہ احساس اجاگر ہوگا کہ ان کے والدین کی نظر میں ان کی اہمیت ہے اوروہ ان کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دینے کے بجائے ان سے گزارش کریں ۔ یعنی اپنے لب و لہجے میں ایک مثبت تبدیلی لائیں۔کیونکہ ان حالات میں بچوں پر چیخنے چلانے سے ان کے تناؤ میں اضافہ ہوگا اور وہ غصے کا شکار ہوجائیں گے۔اُن کے ساتھ نرم لہجے میں بات کیجئے ۔نوعمربچوں کو ان کے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔انہیں اس کے لئے وقت مہیا کرو۔بچوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقعہ فراہم کریں۔خاص طور سے اگر وہ اپنے خوف اور تشویش کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں تو والدین کو چاہیے کہ وہ انہیں سنیں۔
ماہرین کی تجاویز میں یہ مشورہ بھی شامل ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ گل مل جائیں اور ان کے ساتھ وقت گزاریں ۔اس طرح سے بچوں میں تحفظ کا احساس اُجاگر ہوگا اور وہ اچھا محسوس کریں گے ۔روزانہ ورزش کرنے سے بھی تناؤ کے ماحول میں کمی ہوگی اور گھر میں چہل پہل بھی ہوگا ۔ایک اور کام یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو خطوط لکھنے ، تصویریں بنانے اور انہیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے جیسے کام کی طرف راغب کریں ۔اس طرح سے وقت گزاری ہوسکتی ہے۔حفظان ِ صحت کا خیال رکھنا اور ہاتھ دھونے کے عمل کو لطف انگیز بنائیں۔ تاکہ یہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ بچے اس کے عادی ہوجائیں۔بچوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھائیں کہ اس وقت ہاتھ باربار دھونا اور سماجی دوریاں بنائے رکھنا کیوں ضروری ہے۔والدین کو اپنے بچوں کے لئے خود ایک نمونہ بننا چاہیے۔انہیں خود اس طرح کے کام کرنے چاہیں تاکہ بچے انہیں دیکھ کر ان باتوں پر عمل کریں ۔بچوں کو مثبت رویوں اور مثبت چیزوں کے بارے میں بتائیں۔
اگر بچے اگر برا برتاؤ کررہے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اس وقت کے حالات میں وہ در اصل تھکن، بھوک، خوف جیسی چیزیں محسوس کررہے ہیں۔گھر پر پڑے رہنے کی وجہ سے ان کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ والدین ان کے رویہ میں تبدیلی لانے میں ان کی مدد کرسکتے ہیں۔یہاں تک کہ خود والدین کو اس وقت اپنا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔انہیں خود پر سکون رہنے اور تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور ان کو سپورٹ کرنا چاہیے ۔ان کی باتیں سننی چاہیں اور یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ان دنوں کیسا محسوس کررہے ہیں۔بچوں کو سنیں، جب وہ یہ بتارہے ہوں کہ وہ کیسا محسوس کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کو ان دنوں نظر انداز کرو کیونکہ اس کی وجہ سے آپ خوف ذدہ ہوجاتے ہیں۔آرا م کرنے اور سکون سے رہنے کیلئے نئے نئے طریقے اختیار کریں ۔ اگر آپ ایک منٹ تک بھی پر سکون رہنے کی پریکٹس کریں تو یہ عمل بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس ایک منٹ کے پر سکون رہنے کے مثبت اثرات اپنے ذہن اور جسم پر مرتب ہونگے ۔اپنے خیالات کی طرف دھیان دیں اور یہ محسوس کریں کہ آپ خود کو اس وقت جذباتی طور پر کیسا محسوس کررہے ہیں۔
اپنے بچوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات کریں۔موجودہ حالات خاموشی اور رازداری برتنے کا وقت نہیں ہے۔ بلکہ اپنے بچوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر ایمانداری کے ساتھ اورکھل کر بات کریں ۔انہیں موجودہ حالات کے بارے میں اس حد تک بتائیں ، جس حد تک وہ سمجھ پائیں گے۔یہ اچھا ہوگا کہ اگر آپ ان کے سوالوں کا صاف گوئی کے ساتھ جواب دیں۔کئی بار بچے باربار ایک ہی نوعیت کے سوالات پوچھیں گے ۔ بغیر جھنجلاہٹ کے ان کا جواب دیجئے۔اپنے سوالات کا جواب پاکر بچے مطمئن ہوجاتے ہیں اور وہ پرسکون ہوجاتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔
آرتی دھر کے قلم سے