امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ امریکہ حمزہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے آپریشن میں شامل تھا لیکن تفصیلات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
حکومتی اہلکاروں نے یہ ضرور بتایا کہ حمزہ بن لادن کی موت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے دو برس پہلے ہوئی تھی، جبکہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اس خبر پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوچھا گیا کہ کیا انھیں اس آپریشن کے بارے میں کوئی علم تھا؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'میں اس بارے میں کوئی بات کرنا نہیں چاہتا'۔
واضح رہے کہ اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن کی عمر 30 برس تھی اور وہ 11 ستمبر سنہ 2001 کو اپنے والد کے ہمراہ افغانستان میں موجود تھے، جب امریکہ میں حملے کیے گئے تھے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق افغانستان پر حملے کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گئے، تاہم جب سنہ 2011 میں امریکی افواج نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تو اس وقت حمزہ ایران میں نظر بند تھے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکومت حال ہی میں حمزہ بن لادن کی موت سے متعلق کسی نتیجے پر پہنچی ہے، کیونکہ اس برس فروری میں انھوں نے حمزہ بن لادن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو دس لاکھ ڈالر کی پیش کش کی تھی، اور حمزہ کو القاعدہ کا اہم رہنما قرار دیا تھا۔
حمزہ بن لادن نے اپنے والد اسامہ بن لادن کے انتقام کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امریکہ نے انھیں سنہ 2017 میں عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
وہیں اس برس مارچ میں سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے حمزہ بن لادن کی شہریت منسوخ کردی ہے، اور کہا کہ یہ فیصلہ نومبر سنہ 2018 میں جاری کیے گئے شاہی فرمان کے تحت لیا گیا ہے۔