حیدرآباد کے تاریخی عثمانیہ جنرل اسپتال میں شدید بارش کے باعث پانی بھر جانے کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں نے وزیر اعلی کے چندرشیکر راؤ کی کھل کر مخالفت کی۔
عثمانیہ جنرل اسپتال میں پانی بھر جانے کے بعد ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر ملازمین کو پانی کے بہاؤ کو روکتے ہوئے اور اسپتال کی صاف صفائی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
تلنگانہ کے حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 'یہ منظر حکمراں جماعت کے بلند و بانگ دعوؤں کی پول کھول دینے کے لیے کافی ہے'۔
یہ ایک صدی قدیم اسپتال میں سیلاب کی طرح کی صورتحال تھی، جب طبی ملازمین عمارت میں پانی کو داخل ہونے سے روکنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔
شہر میں لگاتار دوسرے دن بھی شدید بارش کے باعث پانی دریائے موسی کے کنارے واقع تاریخی عثمانیہ جنرل اسپتال کی عمارت میں داخل ہوگیا۔ راہداریوں، گلیوں اور وارڈز میں بھی بارش کا پانی گھس گیا، جس سے مریضوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر خوب وائرل کی گئی۔ ان ویڈیوز میں مریض اور ان کے ساتھیوں کو بستر کے اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا گیا۔
تلنگانہ کانگریس صدر اتم کمار ریڈی نے ٹویٹ کیا ہے کہ 'یہ ریاست کے سب سے قدیم اور تاریخی عثمانیہ گورنمنٹ اسپتال کی حالت ہے! پہلے ہی کورونا وبائی امراض نے ریاست کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، اس کے باوجود سرکاری اسپتال میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی شہریوں کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کررہی ہیں'۔
بی جے پی کے رہنما کرشنا ساگر راؤ نے ٹویٹ کیا ہے کہ 'حیدرآباد میں عثمانیہ اسپتال کی حالت یہ ہے اور ہمارے سی ایم کے سی آر سیکرٹریٹ کو گرانے اور اس کی نئی تعمیرات میں مصروف ہیں!'۔
مجلس بچاؤ تحریک (ایم بی ٹی) کے امجد اللہ خان نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے گورنر تملسائی سندر راجن سے اسپتال کا دورہ کرنے اور صورتحال کا جائزہ لینے کی درخواست کی ہے۔
صحت عامہ کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اسپتال میں صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ بلدیہ کے حکام مرمت کا کام نہیں کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بارش کا پانی عمارت میں داخل ہوگیا ہے۔
بتادیں کہ سنہ 2015 میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) حکومت نے اس عمارت کو منہدم کرکے نئی تعمیر کا وعدہ کیا تھا، جو تاحال پورا نہیں ہوسکا۔
مزید پڑھیں: گاندھی اسپتال کے آوٹ سورسنگ اسٹاف کی ہڑتال
تاہم مورخین اور ممتاز ماہرین تعمیرات کی سخت مخالفت نے حکومت کو اس تاریخی عمارت کو منہدم کرنے کے اپنے منصوبوں کو چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
- عثمانیہ جنرل اسپتال کی تاریخ:
واضح رہے کہ ریاست حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان نے عثمانیہ اسپتال کو اس وقت تعمیر کروایا تھا، جب سنہ 1908 میں شہر حیدرآباد کی موسی ندی میں طغیانی آئی تھی۔ جس کے باعث پورے شہر میں وبائی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ اسی تناظر میں نظام میر عثمان علی خان نے بڑے پیمانے پر سرکاری اسپتال کو منظوری دے دی اور اس کی تعمیر کے بعد تمام مریضوں کا مفت میں علاج کیا گیا۔ اسی وجہ سے اسپتال کا نام ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔
عثمانیہ جنرل اسپتال کو برطانوی معمار ونسنٹ جیروم ایسچ اور نواب خان بہادر مرزا اکبر بیگ نے ہند ۔ سارسینک انداز میں ڈیزائن کیا تھا، یہ 1919 میں مکمل ہوا۔
ثقافتی ورثہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عثمانیہ اسپتال کے گنبدوں سے حیدرآباد کی دلکشی اور خوب صورتی میں مزید اضافہ ہوا۔
یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ 26.5 ایکڑ پر پھیلے اس اسپتال میں 11 بڑے بلاکس ہیں۔ اس میں ان پیشنٹ بلاک کا رقبہ 2.37 ایکڑ پر ہے۔ جہاں کل 1،168 بستروں کی گنجائش ہے۔